معاشرہ زوال پذیر ہے جس کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اقدار جن کی بنیاد پر معاشرے میں اچھائی و بُرائی میں تمیز کی جاتی تھی اُسے مالی حیثیت کا دیمک چاٹ رہا ہے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ مشکلات کی گرداب سے نکلنے کا راستہ ’تعلیم و تربیت‘ ہے لیکن جب ہم شعبہئ تعلیم کو دیکھتے ہیں تو داخلہ امتحانات سے لیکر سالانہ امتحانات تک ’شارٹ کٹس‘ سے کام لیا جاتا ہے۔ تعلیم کاروبار اور صنعت کا درجہ پا چکی ہے جس میں نصاب کو ایک خاص پیرائے میں محدود کر کے دیکھا جاتا ہے۔ درس و تدریس کے اعلی مقاصد حاصل کرنے کے لئے ایسے تمام شارٹ کٹس (کاروبار) کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی ۔’طالب علم شارٹ کٹس کے ذریعے دوسروں کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔‘ یہ صورتحال بہت سے محققین کے لئے ایک دلچسپ سوال بھی ہے۔ کیا بدعنوانی کی طرف رجحان جیسی قابل مذمت صورتحال کا آغاز گھر سے ہوتا ہے؟ طلبہ امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے کے آسان طریقوں کی تلاش میں کیوں رہتے ہیں اور تعلیمی اداروں کی موجودگی میں ’ٹیوشن سنٹرز‘ کا جواز کیا رہ جاتا ہے؟ رٹے پر مبنی تعلیم اور سفارش پر مبنی تعلیمی نظام سے بہتری کی اُمید نہیں ہونی چاہئے۔ یہ دیکھنا چاہئے کہ اعلیٰ تعلیمی درجات (کالجز) میں داخلہ لینے کے لئے طلبہ کو کس طرح کے دباؤ اور صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے نکلنے کے لئے وہ ’دھوکہ دہی‘ پر مجبور ہوتے ہیں یا اُنہیں اِس جانب راغب کیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال بالکل منشیات کے استعمال جیسی ہے جس میں ملوث طلبہ کی تعداد روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔بعض طلبہ نے سمجھ لیا ہے کہ تعلیم کا مقصد صرف اور صرف اسناد (ڈگریاں) حاصل کرنا ہے اور امتحانات میں ”اچھے گریڈ (نتائج)‘ اچھی نوکری“ حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
درس و تدریس کے نظام کو ہمیشہ اساتذہ اور ماہرین کے نکتہئ نظر سے دیکھا جاتا ہے جبکہ اِس عمل کو اگر طلبہ کی نگاہ اور نفسیات کی رو سے دیکھا جائے تو پورا نظام عفریت دکھائی دے گا۔ تحقیق کی جائے تو ثابت ہوگا کہ جن اداروں میں طلبہ کو ادارے کے قواعد و ضوابط اور فیصلوں سے الگ رکھا جاتا ہے اور جہاں طلبہ کو اعتماد میں لیا جاتا ہے وہاں کے طلبہ تعلیمی بندوبست کے بارے میں مختلف قسم کی رائے رکھتے ہیں۔ ایک طرف دلچسپی تو دوسری طرف عدم دلچسپی عیاں ملے گی۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو والدین اور اساتذہ کی ترجیح امتحانات میں اچھے نمبر دلوانا ہے۔ طلبہ کے لئے تعلیمی دباؤ اور شارٹ کٹس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ذہانت اور اہلیت کا خون ہو رہا ہے اور دھوکہ دہی عام ہے۔تعلیمی اداروں اور درس و تدریس کے عمل کو ”دھوکہ دہی کے مراکز یا ترغیبات“ سے بچانے کے لئے شخصی رجحانات پر توجہ دینا ہوگی جس میں تمام تر توجہ انفرادیت اور سیکھنے کے ارد گرد مرکوز ہو۔ طلبہ کتابوں سے زیادہ اُن تجربات سے سیکھتے ہیں جن پر وہ اپنی معلومات یا علم آزماتے ہیں۔ اِس نکتہئ نظر سے تدریسی مواد پر نظرثانی کرنی چاہئے کہ اِس میں تعلیمی اداروں میں آنے جانے کے معمولات کی بجائے نتائج سیکھنے سکھانے پر ہونی چاہئے۔ طالب علموں ایک دوسرے سے بھی سیکھ رہے ہوتے ہیں اور اُن کے لئے استاد ’بطور رول ماڈل‘ بھی کسی درسی کتب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ جامعات میں ’اوپن بک‘ امتحانات کے خاتمے کے لئے طلبہ کی اہلیت جاننے کا نیا طریقہئ کار وضع کرنا پڑے گا جو تحریر و تحقیق پر مبنی ہونا چاہئے۔ تدریس کا مختلف طریقہ ہر سبق کو ایک خاص وقت (ٹائم ٹیبل) دینے پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ کسی طالب علم کی مدد اُس وقت تک مختلف طریقوں سے کی جانی چاہئے جب تک وہ کوئی خاص نظریہ یا تصور سمجھ نہ لے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ طلبہ کو سیکھتے وقت غلطیاں کرنے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں اہلیت کی تشخیص کا طریقہ اور معیار تبدیل کرنا ہوگا۔ کلاس رومز میں مقابلے کی بجائے اگر طلبہ اور اساتذہ ایک دوسرے سے تعاون کریں تو اِس سے درس و تدریس کا عمل ’تاریک و بند گلی‘ سے نکل کر ’راہئ روشن‘ پر گامزن ہو سکتا ہے جو قومی تعمیروترقی کے لئے ایک نیا دور ثابت ہوگا۔ وقت آگیا ہے کہ تعلیمی ادارے طلبہ کی قابلیت و اہلیت کا اندازہ لگانے کے لئے مقابلہ بازی (امتحانی نمبروں) کو واحد معیار کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے سیکھنے سکھانے پر زیادہ توجہ مرکوز کریں۔ سمجھنا ہوگا کہ آج کے طلبہ پر مختلف قسم کے دباؤ ہیں۔ طلبہ کی اکثریت ملک کے معاشی بحران سے بھی کسی نہ کسی صورت متاثر ہو رہی ہے اور اچھی نتائج دکھانے کے لئے اُن پر سماجی دباؤ بھی اپنی جگہ موجود ہے جس کی وجہ سے نقل جیسے ذرائع کا سہارا لیا جاتا ہے۔ طلبہ کو دیئے جانے والے ’شیڈولز‘ اور ’ڈیڈ لائنز‘ کے اثرات کا جائزہ لینا بھی یکساں اہم و ضروری ہے کیونکہ جب کوئی طالب علم پریشان ہو گا تو اُس کے سیکھنے کا عمل اُس وقت تک بحال نہیں ہوگا جب تک وہ خوف و پریشانی جیسی کیفیات سے باہر نہیں نکل آتا۔ اہم بات یہ ہے کہ قومی سطح پر اور معاشرے سے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے تعلیمی اداروں میں ”اخلاقی اصلاحات“ متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ چاہے جتنی بھی کوشش کر لی جائے لیکن طلبہ کی جذباتی‘ سماجی اور نفسیاتی ضروریات پورا کئے بغیر‘ دھوکہ دہی سے پاک اقدار و ثقافت کا دور دورہ نہیں کیا جا سکے گا۔