ایمسٹر ڈیم، ہالینڈ: ایک عرصے قبل ناپید ہونے والے ہاتھی ’میمتھ‘ کے ڈی این اے کی جینیاتی تدوین کے بعد اس سے گوشت کا ایک بڑا کوفتے نما گولہ بنا لیا گیا ہے۔
آسٹریلوی کمپنی نے ایک نوجوان میمتھ کے ڈی این اے سے جو گوشت اخذ کیا ہے، فی الحال وہ ناقابل تناول ہے تاہم اس سے ایک نئی عوامی بحث چھڑ چکی ہے کہ آیا گوشت تجربہ گاہ میں بنایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اسٹارٹ اپ کمپنی ’واؤ‘ کے سربراہ نے بتایا کہ یہ اپریل فول کا لطیفہ نہیں بلکہ حقیقی اختراع ہے جس کی تقریبِ رونمائی ایمسٹرڈیم کے ایک میوزیئم میں کی گئی ہے۔
کمپنی کے بانی ٹِم نواک اسمتھ کے مطابق اسے ’خلیات سے اخذ کردہ گوشت‘ کہا جاسکتا ہے کیونکہ اسے تجربہ گاہ میں کلچر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے کسی جانور کو مارا نہیں گیا ہے کیونکہ یہ عمل ماحول اور خود جانور کے لیے بہت مفید ہوسکتا ہے۔
میمتھ کی جینیاتی معلومات حاصل کرکے باقی معلومات کو اس کے قریبی جانور سے لیا گیا جو افریقی ہاتھی ہے۔ پھر اس ڈی این اے کو بھیڑ کے خلئے میں شامل کیا گیا۔ تجربہ گاہ میں مناسب ماحول کے بعد خلیات (سیلز)بڑھنے لگے اور بڑھتے بڑھتے گوشت کا ٹکڑا بن گئے۔
تاہم اب بھی یہ کمرشل گوشت کا مرحلہ بہت دور ہے کیونکہ یہ عمل اس وقت بھی بہت مہنگا ہے۔ فی الحال سنگاپور دنیا کا واحد ملک ہے جس نے خلیات سے گوشت بنانے اور بیچنے کی اجازت دیدی ہے۔
کمپنی نے اسے گوشت کا ماحول دوست مستقبل قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اس کے لیے بڑے بڑے فارم اور بے تحاشہ جانوروں کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ جانوروں کے خلیات سے ہی گوشت بنایا جاسکے گا۔ اس سےقبل ماہرین خلیات سے تیار گوشت کا کباب بنا کر پیش کرچکے ہیں۔
چونکہ میمتھ کی لاشیں برف میں منجمند ملی ہیں تو اسی وجہ سے ان میں خون اور ڈی این اے کے نمونے بہتر حالت میں ہوتے ہیں اور انہی سے ڈی این اے نکالا جاتا ہے۔