نگران حکومتیں اور عدالت عظمیٰ کی گائیڈ لائنز 

جمہوری ممالک میں نگران حکومتوں کاتصور نہیں ہوتا کیونکہ وہاں ادارے مضبوط ہوتے ہیں اس لئے کسی کو بھی من مانی کی جرات نہیں ہوتی پڑوسی ملک بھار ت کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں نہ تو کبھی جمہوریت ڈی ریل ہوئی نہ ہی وہاں الیکشن کے لئے نگرانی کی ضرورت محسوس کی گئی ہمارے ہاں بھی جب 1977ء میں الیکشن ہورہے تھے تو نگران حکومت کاکوئی تصور نہیں تھا ذوالفقار علی بھٹو ہی وزیر اعظم تھے اور کسی نے ان کی موجودگی میں الیکشن پر اعتراض نہیں کیا مگر ان کے زیر نگرانی جوالیکشن ہوئے اس کے پورے عمل میں حزب اختلاف کے ساتھ جو سلو ک روا رکھاگیااسی نے پھر وطن عزیز میں نگرانی کے تصور کو گہرا کیا تاہم جب مئی 1988ء میں جونیجو حکومت برخاست کی گئی تو نگران وزیر اعظم کاتقرر کرنے کے بجائے صدر جنرل ضیاء نے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لئے سینئر وزیر کا تقرر کیا بعدازاں جب بے نظیر بھٹو حکومت ختم کی گئی تو پہلے نگران وزیر اعظم کاتقرر کیاگیا اس میں بھی بدترین سیاسی ناانصافی کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کو نگران وزیر اعظم مقرر کیاگیا جو خود بھی الیکشن لڑرہے تھے ایک عرصہ تک نگران حکومت کے وزراء پر الیکشن میں حصہ لینے کی مکمل آزادی تھی مگرپھر ا ن پر پابندی عائد کردی گئی یہ پابندی غالباً 1993ء کے انتخابات میں عائد کی گئی تھی پھر رفتہ رفتہ نگران حکومت کی غیر جانبداری کے تصور نے جڑ پکڑنا شروع کردی اور کبھی بھی نگران حکومت یا اس کے وزراء پر اعتراضات سامنے نہیں آئے تاہم اس وقت صورت حال انتہائی تکلیف دہ بن چکی ہے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد جب نگران حکومتوں کے قیام کا مرحلہ آیا تو پنجاب میں بدترین سیاسی چپقلش کی وجہ سے نگران وزیر اعلیٰ کے نام پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا جس کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے محسن نقوی کو اس عہدے کے لئے نامزد کردیاگیاظاہرہے کہ یہ الیکشن کمیشن کااختیار ہے اس لئے یہ معاملہ چیلنج بھی نہیں ہوسکتاتھا اس معاملہ میں پنجاب کی حد تک ن لیگ نے اپنے کارڈبہت کامیابی کے ساتھ کھیلے وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کے بعد جب معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں گیا تو وہاں بھی ایسے نام سامنے لائے گئے جن پر اتفاق رائے ناممکن تھا چونکہ پی ٹی آئی تمام اداروں کے ساتھ بھی بھڑی ہوئی تھی اس لئے ن لیگ نے درست فیصلہ کرتے ہوئے معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جانے دیا جس نے ظاہرہے کہ پی ٹی آئی کے ناپسندیدہ نام کو ہی آگے چلاناتھا کیونکہ پی ٹی آئی نے ایک عرصہ سے الیکشن کمیشن کے خلاف میدان گرم کررکھاہے چنانچہ محسن نقوی نے پی ٹی آئی کے سینے پر مونگ دلتے ہوئے حلف اٹھایا اورپھر نگران کابینہ میں چن چن کرمتنازعہ لوگ شامل کرلئے دوسری طرف خیبرپختونخوامیں نگران وزیر اعلیٰ کی حدتک پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتوں میں اعظم خان کے نام پر اتفاق تو ہوگیا مگر جب کابینہ کی تشکیل کامرحلہ آیا تو چن چن کرسیاسی لوگ بھرتی کئے جانے لگے اس وقت نگران صوبائی کابینہ میں جے یو آئی،ن لیگ،پیپلز پارٹی،اے این پی اور کیوڈبلیو پی کی واضح نمائند گی موجود ہے اسی لئے تو پی ٹی آئی والے اسے نگران حکومت نہیں بلکہ پانچ جماعتی سیاسی حکومت قراردے رہے ہیں ماضی میں اسی نوعیت کی کابینہ ایم ایم اے حکومت کے خاتمہ پر بھی بنی تھی تاہم 2013ء اور اس کے بعد 2018ء میں جو نگران حکومتیں قائم ہوئیں ان کی ساکھ پر کسی نے بھی سوال اٹھانے کی کوشش نہیں کی مگر اس بار جو نگران حکومتیں بنی ہیں ان میں بہت سے چہرے ایسے دکھائی دے رہے ہیں جو واضح طورپر سیاسی جھکاؤ رکھتے ہیں ان کی سیاسی وفاداریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کہیں بھی ایسی کوئی قدغن نہیں کہ اگر کسی کاتعلق کسی سیاسی جماعت کے ساتھ رہاہو تووہ نگران کابینہ میں شامل نہیں ہوسکتااس لئے سیاسی لوگوں کی نگران کابینہ میں شمولیت پر ا عتراض کی گنجائش نہیں نکلتی لیکن اگر نگران کابینہ اجتماعی طورپریا اس کاکوئی بھی رکن انفرادی حیثیت میں کوئی سیاسی فائدہ اٹھانے یا مخالفین کوسیاسی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرسکتا ایسا کرنے کی صورت میں اس کے اقدامات پر گرفت کی جاسکتی ہے نگران حکومتوں اور نگران اراکین کابینہ کے حوالے سے عدالت عظمیٰ 35برس قبل واضح گائیڈ لائینز دے چکی ہے اوروہ گائیڈ لائنز ہر نگران حکومت کے لئے مؤثر ہیں جونیجو حکومت کے خاتمہ کے خلاف جب معاملہ سپریم کورٹ میں گیا تو اگرچہ عدالت نے اسمبلی کی برخاستگی کو غلط قراردے دیاتھا تاہم چونکہ الیکشن کے لئے مہم عروج پر پہنچ چکی تھی اس لیے عدالت نے حکومت اور اسمبلی بحال کرنے کے بجائے الیکشن کو ترجیح دی تاہم 27ستمبر 1988ء کو اسی  حاجی سیف اللہ کیس میں عدالت عظمیٰ نے  نگران حکومتوں کے حوالہ سے واضح ہدایات جاری کردی تھیں اپنے تفصیلی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ  نگران کابینہ کو صرف ریاست کے روزمرہ کے معاملات نمٹانے تک محدودہوناچاہئے یہ کابینہ کسی ناگہانی مصیبت میں جو جنگ اور امن زلزلوں یا سیلابوں سے متعلق ہو ضروری فیصلے اور اقدامات کرسکتی ہے تاہم یہ اختیار دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے واضح کردیاتھاکہ  وہ(نگران حکومت) اپنی نگران حیثیت کو کسی صورت نظرانداز نہیں کرسکتی  مزید وضاحت کرتے ہوئے عدالت نے قراردیاکہ وہ اپنی اس حیثیت کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لئے استعمال نہیں کرسکتی اس کابینہ میں شامل ہر شخص کو غیر جانبدار رہنا پڑتاہے اور سیاسی میدان میں اس کابینہ کی حیثیت  اپنے سیاسی مخالفین کے لئے بھی غیر جانبدارکی  ہوتی ہے اس لئے نگران حکومت دیگر سیاسی قوتوں اور عوام کے برعکس اپنی پوزیشن سے کوئی سیاسی فائدہ اٹھانے کی مجاز نہیں ہوتی جبکہ ریاست کے روزانہ کے کاروبار کو چلانے کے لئے نگران حکومت کاغیر جانبدار ہونا ضروری ہوتاہے یہ گائیڈ لائنزعدالتی فیصلے میں واضح طورپر دی گئی تھیں جس کے بعد اب نگران حکومت کے مینڈیٹ کے حوالہ سے کسی کو بھی ابہام نہیں ہوناچاہئے خاص طورپر ہماری موجود ہ نگران صوبائی حکومت کو کیونکہ جس طرح سے اس میں پی ڈی ایم اور اس کی اتحادی جماعتوں کو مسلسل نمائندگی دی جارہی ہے اس کے بعد پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کی تشویش کونظر انداز نہیں کیاجاسکتااگر کوئی اس وجہ سے نگران حکومت کاحصہ بناہواہے کہ وہ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کرے گا تواسے حاجی سیف اللہ کیس کے فیصلے کو غور سے پڑھ لیناچاہئے بہتر ہوگاکہ نگران وزیراعلیٰ اعظم خان اس حوالہ سے خود بھی اپنے اراکین کابینہ کو واضح ہدایات جاری کردیں تاکہ مستقبل قریب میں ہونے والے انتخابات کو متنازعہ ہونے سے بچایاجاسکے۔