پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انسانی آزادی کو لاحق خطرات سے متعلق بیانات اور تحقیقات سامنے آتی ہیں لیکن بہت ہی کم بات چیت قیدیوں کے حقوق اور جیل خانہ جات کے حالات کے بارے میں ہوتی ہے جو کسی ڈراؤنے خواب جیسے ہیں! حقیقت یہ ہے کہ فیصلہ ساز حلقوں اور معاشرے میں بالعموم سلاخوں کے پیچھے رہنے والوں سے ’بہت ہی کم ہمدردی‘ پائی جاتی ہے‘یہ سراسر نظرانداز شعبہ ہے توجہ طلب ہے کہ قیدیوں کو بھی انسان سمجھتے ہوئے اُن کے انسانی حقوق کی ادائیگی ہونی چاہئے اور اُن کے بارے میں پائی جانے والی سوچ میں تبدیلی بھی ضروری ہے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ طویل عرصے سے جیل خانہ جات اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے لیکن اِن اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے خاطرخواہ سنجیدگی سے کام نہیں لیا جاتا۔ ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نامی غیرسرکاری تنظیم نے حال ہی میں ایک رپورٹ مرتب کی ہے جو قیدیوں کی صحت کے حوالے سے ہے اِس رپورٹ میں جیل خانوں کو ڈراؤنا خواب قرار دیتے ہوئے جیلوں میں صحت کے بحران کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں قید خانوں کے انتظامی امور میں پائی جانے والی خرابیوں اور قیدیوں کی حالت ِزار کو اجاگر کیا گیا ہے جو غیر انسانی حالات میں رہ رہے ہیں اور ان کے مسائل حل کرنے کے لئے کوششیں نہیں ہو رہیں۔ جیل کے ایک چھوٹے سے کمرے جسے ’سیل (cell)‘ کہا جاتا ہے اِنہیں زیادہ سے زیادہ تین افراد کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیر کیا جاتا ہے لیکن اِس میں کم سے کم پندرہ قیدیوں کو رکھا جاتا ہے‘ صورتحال یوں ہوتی ہے جب قیدیوں کی ایک تعداد کمر سیدھا کرتی ہے تو باقی قیدیوں کو اُن کی استراحت کے دوران کھڑا رہنا پڑتا ہے۔ جب ایک گروہ اپنی نیند پوری کرتا ہے تب دوسرے گروپ کی باری آتی ہے۔ پاکستان کی کل 116 جیلوں میں مجموعی طور پر 65 ہزار 168 قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ اِن قیدخانوں میں 88 ہزار 650 سے زیادہ قیدی ہیں۔ قیدیوں کا یہ ہجوم نہ صرف غیر صحت مند حالات کا باعث بنتا ہے بلکہ یہ قیدیوں میں تپ دق جیسی مہلک بیماریوں کے پھیلاؤ کی بھی بڑی وجہ ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی تحقیقات کے مطابقایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جہاں زیر سماعت قیدیوں کو طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔ ایک اور حیران کن لیکن مکمل طور پر قابل اعتماد حقیقت جو مذکورہ رپورٹ میں اجاگر کی گئی ہے وہ جیلوں میں طبی عملے کی کمی ہے۔ جیلوں کے لئے 193 معالجین ہیں جبکہ پچاس فیصد سے (یعنی ایک سو پانچ) معالجین کے عہدے خالی پڑے ہیں۔ قیدیوں کو شاذ و نادر ہی کسی ماہر معالج سے طبی معائنہ کروانے کا موقع ملتا ہے۔ زیادہ تر معاملات میں‘ انہیں اوور دی کاؤنٹر درد کش دوائیں دیدی جاتی ہیں‘ جو مرض میں عارضی راحت تو فراہم کرتی ہیں لیکن ظاہر ہے کہ یہ کوئی علاج نہیں۔ قیدیوں اپنے ساتھ قید خانے میں کونسی بیماریاں لاتے ہیں اور اُنہیں قیدخانوں کے اندر موجود کونسی بیماریوں سے واسطہ پڑتا ہے اِس کی درست تشخیص اور گہرائی سے مطالعے کی ضرورت ہے۔ توجہ طلب ہے کہ زیادہ تر قیدی غریب ہوتے ہیں جنہیں معمولی جرائم کی وجہ سے قیدخانوں میں ڈال دیا جاتا ہے اُن کے پاس اپنے مقدمات لڑنے اور جیل سے باہر نکلنے کے لئے مالی وسائل کی کمی ہوتی ہے۔ دوسری توجہ طلب بات یہ ہے کہ عدالتوں پر مقدمات کا دباؤ ہے جس کی وجہ سے مقدمات طویل عرصے تک زیرسماعت رہتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ مقدمات کا جلد فیصلہ نہیں ہوتا۔ ایسے قیدی بھی ہوتے ہیں جو اپنے سرزد جرم کی قانونی سزا سے زیادہ وقت قیدخانوں میں گزار دیتے ہیں کیونکہ اُن کے پاس قانونی چارہ جوئی کے لئے مالی وسائل نہیں ہوتے! لمحہئ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں نہایت ہی خاموشی سے تکالیف اُٹھا رہے ہیں اور اُن سے روا رکھا جانے والا غیرانسانی سلوک عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا باعث بھی بن رہا ہے۔ معمولی جرائم میں قید افراد اپنی زندگی کا بڑا حصہ کھو رہے ہیں یہ بات راز نہیں کہ مالی طور پر نسبتاً خوشحال قیدیوں کے ساتھ جیل خانوں میں قدرے بہتر سلوک کیا جاتا ہے کیونکہ وہ جیل انتظامیہ کی مٹھی گرم رکھتے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ خواتین قیدیوں کو جیل کے سکیورٹی گارڈز کی جانب سے بدسلوکی کا سامنا رہتا ہے۔ قیدی خواتین سے اُن کے خاندان طویل عرصے تک رابطہ نہیں کرتے اس لئے وہ جیل انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جہاں کھانے پینے اور آرام جیسی بنیادی سہولیات معیاری نہ ہونے کی وجہ سے وہ صحت کے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں! جیسا کہ مذکورہ رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو نہ رکھا جائے۔ معمولی جرائم میں ضمانت کے قوانین میں اصلاحات کی جائیں اور جیل انتظامیہ قیدیوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے طبی پیشہ ور معالجین کی تعداد میں اضافہ کرے۔ مقصد و مقصود یہ ہونا چاہئے کہ قیدیوں کے ساتھ جیل خانوں میں بھرپور انسانی سلوک کیا جائے جیل خانہ جات اصلاحاتی مراکز بن جائیں جہاں ایک مرتبہ جانے والے کی زندگی بدل جائے اور وہ قانون کا احترام کرنے والا سماجی کردار بن جائے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ کسی وجہ سے قیدخانے پہنچنے والوں کی زندگیوں میں تبدیلی نہ آئے بلکہ وہ ایک جرم کی وجہ سے جرائم کی دلدل میں دھنس جائیں۔ جیلوں کو چھوٹے جرائم میں ملوث افراد یا پہلی بار مجرم بننے والوں کے لئے ”بحالی مراکز“ کے طور پر کام کرنا چاہئے۔ ہمارے معاشرے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جرائم کرنے والے کمزور اعصاب کے لوگوں کی مدد کرے اور اِن سے نفرت کی بجائے اِنہیں زندگی کی طرف لوٹنے کا دوسرا موقع دے۔ زندگی سے زیادہ قیمتی کوئی دوسری شے نہیں اور اگر جرم کی بجائے زندگی قیدخانوں میں متاثر ہے تو اِس حوالے سے فیصلہ سازوں کو اپنے قول و فعل اور نظام پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ”ہوئے قید جرم وفا پہ بھی کہ حصار ظلم نصیب تھا …… مری فرد جرم عجیب ہے‘ جو مرے لہو سے لکھی گئی (قیصر خالد)“۔