روزنامہ آج کے ایک قاری (معالج) نے توجہ دلائی ہے کہ ذرائع ابلاغ امراض کے بارے میں خصوصی پیغامات اور معلومات اُسی مستقل مزاجی سے شائع و نشر کریں جس طرح وہ دیگر سیاسی و غیرسیاسی موضوعات کو توجہ دیتے ہیں۔ خبردار کیا گیا ہے کہ …… ”پاکستان میں بچے ’گلوکوما (Glaucoma)‘ نامی بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے جس سے بچاؤ کے لئے مناسب اقدامات کی ضرورت ہے۔“۔ ذہن نشین رہے کہ ’گلوکوما‘ بصارت (نظر) زائل ہونے کی بیماری ہے اور اگر اِس کا فوری علاج نہ کیا جائے تو آنکھ کو دیکھنے کے قابل بنانے والی رگ (optic nerve) ہمیشہ کے لئے مفلوج (مردہ) ہو جاتی ہے‘ جس کی وجہ سے بینائی کم ہونے کے بعد بتدریج ختم ہو جاتی ہے۔ بروقت ادویات اور جراحت (سرجیکل) علاج کے ذریعے ’گلوکوما‘ کے اثرات پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے یعنی بچوں کو زندگی بھر بصری معذوری یا اندھے پن سے بچانا ممکن ہے اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ’گلوکوما‘ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنا ہوا ہے کیونکہ اِس سے لاکھوں افراد متاثر ہیں۔ بچوں میں گلوکوما کے علاج کے لئے خصوصی طبی نگہداشت‘ سرجیکل مداخلت اور باقاعدگی سے علاج معالجہ (فالو اپ) کی ضرورت ہوتی ہے اِس وجہ سے یہ ایک مہنگا علاج ہے اور ’گلوکوما‘ میں مبتلا بچوں کے والدین نفسیاتی اور مالی دباؤ سے گزرتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں آنکھوں کے امراض کے تجربہ کار اور ماہر پیڈیاٹرکس (ماہر امراض چشم) کی تعداد بھی کم ہے اور جو معالجین یا معاون معالجین ناکافی معلومات (ناتجربہ کاری) کی وجہ سے مرض کی غلط تشخیص کرتے ہوئے ایسی ادویات تجویز کرتے ہیں جن کی وجہ سے مرض کی شدت مزید بڑھ جاتی ہے۔ شہری و دیہی علاقوں میں ادویات فروش بھی مرض کی علامات نہیں بلکہ مریض کے بیان کی روشنی میں ادویات دیتے ہیں یا گھریلو ٹوٹکوں کا استعمال کیا جاتا ہے یا دوست احباب ادویات کے بارے میں بتاتے ہیں جن کا استعمال زیادہ خرابی کا باعث بن رہا ہے اور یہ سبھی امور ’گلوکوما‘ کی پیچیدگیوں اور ناقابل تلافی ’اندھے پن‘ کا باعث بن رہی ہیں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ ہمارے ہاں ادویات کے ڈبوں (پیکیجنگ) پر اُن کے ضمنی مضر اثرات کا ذکر درج نہیں کیا جاتا۔ ادویات کی ڈبیوں (پیکیجنگ) کے اندر نہایت ہی باریک لکھائی میں ایک ایسی تحریر ڈالی جاتی ہے جو صرف طبی ماہرین ہی سمجھ سکتے ہیں جبکہ ضرورت عام فہم انداز میں اور پیکیجنگ کے اوپر ہی معلومات درج ہونی چاہیئں تاکہ ازخود ادویات لینے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو۔
پاکستان میں ’نابینا پن‘ بڑھ رہا ہے جس کی روک تھام سے متعلق پارلیمان کی قومی کمیٹی کے سامنے پیش کردہ اعدادوشمار کے مطابق ”ایک فیصد پاکستانی نابینا ہونے کی وجہ سے اندھیرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور اِن میں بڑی اکثریت بچوں کی ہے لیکن اگر علاج معالجے کی سہولیات کو وسیع کیا جائے تو کم از کم ایک تہائی ایسے مریضوں کا علاج ممکن ہے۔ بینائی سے متعلق شعور اُجاگر کرنے کے لئے عالمی سطح پر مختلف ایام منائے جاتے ہیں جن کا مقصد ضروری و مناسب اور معیاری علاج معالجے کے ذریعے اِس مرض کی روک تھام ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور نابینا پن کی روک تھام کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے پی بی) نے نابینا پن کے خاتمے کے لئے ایک عالمی اقدام تیار کیا ہے اور بچپن کے اندھے پن کو روکنے کے لئے پانچ امور پر توجہ مرکوز کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں عالمی حکمت عملی کا اطلاق اور برسرزمین حقائق کیسے تبدیل ہوں گے یہ اہم سوال اپنی جگہ جواب طلب ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ’لائنز کلب انٹرنیشنل فاؤنڈیشن‘ سال 2000ء سے ’سائٹ فرسٹ کمپیئن (SightFirstCampaign)‘ نامی خصوصی مہم چلا رہی ہے جس کے تحت پشاور کا ’گل بہار لائنز کلب‘ علاج معالجے کے دیگر فلاحی اداروں کی طرح سارا سال خصوصی تقاریب کا اہتمام کرتا ہے البتہ یہ آنکھوں کے امراض سے متعلق یہ عمومی عوامی کوششیں محدود ہیں اور انہیں آبادی کے تناسب سے بڑھاتے ہوئے صرف گل بہار ہی نہیں بلکہ پشاور کے مختلف حصوں کے نام سے الگ الگ اجتماعی اور مربوط کوششیں ہونی چاہیئں۔ (بینائی کا عالمی دن ’ورلڈ سائٹ ڈے‘ ہر سال ماہئ اکتوبر کی دوسری جمعرات کو منایا جاتا ہے جبکہ گلوکوما کا عالمی دن اور اِس حوالے سے ایک ہفتے تک شعور و آگاہی پھیلانے والی تقاریب پر سال ’بارہ مارچ‘ کے روز ہوتی ہیں لیکن چونکہ بینائی کا تعلق انسانی زندگی کے ہر جاگتے لمحے کے ساتھ ہے اِس لئے معالجین تجویز کرتے ہیں کہ بینائی کے لئے کوئی ایک دن‘ کوئی ایک ہفتہ مخصوص کرنا کافی نہیں بلکہ اِس اہم مسئلے سے نمٹنے کے لئے ہر دن کچھ نہ کچھ کوشش اور اپنی معلومات میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرنا چاہئے۔)
بینائی اہم ہے اور اِسی لئے بینائی کا تحفظ بھی یکساں اہم ہے۔ والدین یا سرپرستوں کا فرض بنتا ہے کہ جس طرح وہ بچوں کے کھانے پینے وغیرہ یعنی جسمانی نشوونما سے متعلق ضروریات کا خیال رکھتے ہیں بالکل اُسی طرح ضروری (لازم) سمجھتے ہوئے بچوں کو ایسے افعال و اعمال (معمولات) سے بھی الگ رکھیں جن کا اثر اُن کی بینائی میں کمزوری کی صورت ہوتا ہے جیسا کہ ٹیلی ویژن دیکھنے کے طویل اوقات‘ ٹیلی ویژن دیکھنے کا فاصلہ‘ موبائل فون‘ کمپیوٹر اسکرین‘ ٹیبلٹس پر نظریں جمانا یعنی منور الیکٹرانک آلات کا زیادہ استعمال یا اِنہیں لیٹ کر اور نسبتاً اندھیرے کمرے میں دیکھنا قطعی محفوظ نہیں اور اِن کا آنکھوں کی صحت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وبائی امراض کو پھیلنے سے روکنے کے لئے یہ بات بھی ضروری ہے کہ شادی بیاہ کا خاندان کے اندر فیصلہ کرتے ہوئے پیشگی مختلف میڈیکل ٹیسٹ کروا لئے جائیں اور معالجین کے مشورے سے اِس بات کی تسلی کر لی جائے کہ خاندان کی جنیات میں منتقل ہونے والی بیماریاں اگر ہیں تو کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ اگر گردوپیش کا جائزہ لیا جائے کہ کتنی بڑی تعداد میں بچے نظر کی عینک لگائے ملتے ہیں اور عینک کا استعمال کرنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماضی قریب میں بمشکل کوئی بچہ عینک لگائے دکھائی دیتا تھا لیکن آج ہر کلاس روم میں اوسطاً ایک سے زیادہ بچے بصارت کی کمی کی شکایت کرتے ہیں یا اُن کے چہروں پر عینک لگی ملتی ہے۔ بچوں کی بصارت کو محفوظ اور صحت مند رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ قدرتی روشنی میں پڑھیں‘ کھیلیں کودیں اور اپنی تدریسی و کھیل کود کی مصروفیات زیادہ سے زیادہ قدرتی روشنی کے گھنٹوں میں پوری کریں۔ اِس مقصد کے لئے تعلیمی نظام میں بھی اصلاحات لانا ہوں گی تاکہ بچوں پر تعلیم کا جو غیرضروری بوجھ بڑھا دیا گیا ہے اُسے کم کیا جا سکے۔ بچوں کو مشینوں کی طرح الصبح سے رات گئے تک اگر صرف نصابی کتب و متعلقہ مواد ہی دیکھنا ہے تو اِس سے اُن کی نیند کے اوقات کم ہو گئے ہیں۔ وہ ایک ایسے نظام کی قید میں ہیں‘ جو اُن کی جسمانی صحت کو متاثر کر رہا ہے اُور اِس میں سکول بیگ کا وزن بھی شامل ہے جس کی وجہ سے بچوں کی کمریں جھک گئی ہیں۔ والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر بچوں کو گھر اور کلاس روم سے باہر کھیل کود اور دیگر سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے مواقع وسہولیات فراہم کریں لیکن چونکہ بچے والدین‘ بہن بھائیوں (اہل خانہ)‘ اساتذہ اور اپنے گردوپیش کے ماحول سے زیادہ کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں اِس لئے جب والدین‘ اساتذہ اور اہل خانہ اپنے معمولات کو تبدیل کریں گے تو اُن کی دیکھا دیکھی بچے بھی ویسا ہی کریں گے۔ اگر کسی گھر کے بڑے موبائل فون دیکھنے (سکرین ٹائم) کو محدود نہیں کرتے اور وہ صرف بچوں کو ایسا کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور ہر روز ایک ہدایت نامہ جاری کرتے ہیں تو ایسی صورتحال مثبت نتائج کی حامل نہیں ہو سکتی۔ ضرورت معمولات میں تبدیلی کے ساتھ آنکھوں کی راحت اور ورزش کو اپنانے کی ہے‘ بقول طبی ماہرین اگر ایسا کر لیا گیا تو اِس سے خاطرخواہ بہتری آسکتی ہے۔