مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 30 ستمبر 1207ء بلخ (افغانستان) میں ہوئی جبکہ 17 دسمبر 1273ء کے روز دنیا سے پردہ فرمانے کے اگلے دن (اٹھارہ دسمبر) قونیہ (ترکیہ) میں آسودہئ خاک کئے گئے۔ مولانا رومیؒ کا ایک لقب ’مولوی‘ بھی تھا جو آپؒ کی حکیمانہ تعلیمات اور فکر کی بے مثال گہرائی کے سبب عام ہوا۔ ایک دن حوض کے کنارے بیٹھے تصنیف و تالیف میں مصروف تھے کہ ایک درویش پاس آیا اور سوال کیا کہ کیا لکھ رہے ہو؟ مولانا رومیؒ نے جواب دیا …… ”یہ وہ علم ہے جو تم نہیں جانتے۔“ درویش نے آپؒ کے ہاتھ سے مسودہ لیا اور اُسے تالاب میں پھینک دیا۔ مولانا رومیؒ پریشان ہوئے اور کہا کہ یہ تو میری ساری زندگی کی محنت کا حاصل (کل سرمایہ) تھا۔ اِس پر درویش نے تالاب میں ہاتھ ڈالا اور وہی مسودہ نکالا جو بالکل خشک حالت میں تھا۔ مولانا رومیؒ نے حیرت سے پوچھا ”یہ کیسے؟“ تو اُنہوں نے جواب دیا ”یہ وہ علم ہے جو تم نہیں جانتے۔“ اِس جواب سے مولانا رومیؒ سب کچھ چھوڑ کر درویش کے پیچھے ہو لئے۔ کہا مجھے تعلیم دیں۔ یہ درویش حضرت شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ (ولادت 1185 تبریز‘ ایران۔ وصال 1248ء کھوے‘ ایران) تھے جنہوں نے ایک دنیاوی طالب علم کو حقیقی علم یعنی معرفت ِالٰہی کا ’مولوی‘ بنا دیا۔ اپنے پیر و مرشد کے حکم پر بعدازاں مولانا رومیؒ نے ”مثنوی“ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو آج ”مثنویئ مولانا روم‘ کے نام مشہور ہے۔ چھ جلدوں میں شائع 26 ہزار 660 اشعار پر مشتمل اِس فارسی کلام کے کم سے کم 26 زبانوں بشمول اُردو میں تراجم ہو چکے ہیں۔ مثنوی کو جس قدر شہرت اور مقبولیت حاصل ہے فارسی کی کسی دوسری کتاب کو آج تک نہیں ہوئی۔ آج بھی ایران میں 4 کتابیں (شاہ نامہ‘ گلستان‘ مثنوی
روم اور دیوان حافظ) مشہور ہیں اور اِن میں مثنوی ہی سب زیادہ مقبول ہے جو علمی ادبی حلقوں کے علاؤہ عوام الناس اور دیگر خواص میں یکساں مقبول ہے۔پشاور کی سرتاج علمی‘ ادبی اور روحانی شخصیت‘ شیخ الحدیث و التفسیر‘ سیادت پناہ‘ سیّدی و مرشدی قبلہ سیّد محمد امیر شاہ قادری گیلانی علیہ رحمۃ الغفار بھی مولانا رومیؒ کے لقب ’مولوی‘ ہی سے مشہور ہوئے اور آپ کا یہ اسم تعارفی ”مولوی جیؒ“ آج بھی اہل پشاور کی زبان پر ہے جو پشاور کا مستند حوالہ اور تاریخ پشاور کا اہم باب ہے۔ مولوی جیؒ ایسی حکیمانہ شخصیت تھے جنہوں نے صرف تصوف اور روحانیت ہی نہیں بلکہ قیادت و سیادت کے شعبوں میں بھی اہل پشاور کی ہاتھ پکڑ پکڑ کر رہنمائی کی اور اُنہیں (بقول علامہ اقبالؒ) خاک سے اکسیر بنا دیا۔ آج (13 رمضان المبارک 1444 ہجری بمطابق 4 اپریل 2023ء) ”پشاور کے اِنہی ہردلعزیز مولوی جی علیہ الرحمہ“ کا ’19 واں عرس مبارک‘ عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے اور اِس سلسلے میں کوچہ آقا پیر جان‘ اندرون یکہ توت شریف ’آستانہ عالیہ قادریہ حسنیہ امیریہ‘ میں ختم قرآن پاک‘ محافل درود و سلام‘ ختم غوثیہ اور دیگر اوراد کا آغاز حسب سابق یکم رمضان المبارک سے جاری ہے جو امیرالمومنین حضرت علی ابن ا بی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت (شب
ضربت اُنیس رمضان المبارک سے روز شہادت اکیس رمضان المبارک اور شب قدر تیئس رمضان المبارک) تک جاری رہے گا۔ عرس مبارک کی اِن تقریبات میں ملک بھر اور بالخصوص پشاور کے کونے کونے سے مرید اور عقیدت مند بصد احترام شریک ہیں اور پیر و مرشد سے اپنی اپنی محبت و عقیدت (ذوق و بیداریئ قلب) کے مطابق روحانی فیوض و برکات حاصل کر رہے ہیں۔ سجادہئ نشین نور السادات‘ سیّد نور الحسنین قادری گیلانی (سلطان آغا) حفظہ اللہ ”حنفی حسینی عقائد“ کے تحفظ کے لئے کوششیں بھی اپنی جگہ اہم ہیں جو اِن دنوں ایک روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے جسمانی طور پر علیل ہیں (بقول غالب: رگ بستر کو ملی شوخی مژگاں مجھ سے۔) دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سلطان آغا کو صحت ِکاملہ عاجلہ عطا فرمائے۔
اہل پشاور ’مولوی جیؒ‘ کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ اِن میں اکثریت اُن کی ہے جنہوں نے راقم الحروف کی طرح آپؒ کے دست حق پرست پر بیعت ہونے کا شرف حاصل کیا اور یہ مولوی جیؒ ہی کی نظر عنایت تھی کہ آج بھی سینکڑوں ہزاروں دلوں میں ’لا الہ الا اللہ‘ کا ورد جاری و پختہ ہے اور مذکورہ ’آستانہئ عالیہ‘ سے ذکر و اذکار کی صدائیں پشاور کے بزرگان دین سے تاریخی روحانی تعلق کا اظہار بطور سند و ثبوت کر رہی ہیں۔ مسند ِغوثیت کے وراث‘ در علم (کرم اللہ وجہہ الکریم) اور شہر علم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وابستہ نور السادات ’سلطان آغا حفظہ اللہ‘ حضور غوث الثقلین‘ قطب ربانی غوث الصمدانی‘ محبوب ربانی سیّد محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز سے حاصل رشد و ہدایت کو پھیلا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اِس آستانے اور اِس گھرانے سے پھیلنے اور پھوٹنے والی انوار و تجلیات بصورت وعظ و ارشادات اور عبادات کے سلسلے تاقیامت دراز (قائم و دائم) رکھے۔