آپ احتجاج کسی بھی طریقے سے کر سکتے ہیں یہ آپ پر منحصر ہے کہ اس کے لیے تعمیری راستہ اختیار کرتے ہیں یا پھرتخریب کی طرف سے ہوکر جاتے ہیں ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم میٹر ک میں تھے تو سرکاری سکولوں کے اساتذہ نے مطالبات کے لئے صوبہ گیر ہڑتال کی ہوئی تھی ہم ان دنوں گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول نمبر ایک پشاور صدر میں زیر تعلیم تھے ہڑتال شروع ہوچکی تھی اساتذہ نے کلاسوں کابائیکاٹ کیاہواتھا مگر ایک استاد محتر م ایسے بھی جنہوں نے اپنے طریقے سے حل نکال لیاتھا علوی صاحب ہمیں کیمسٹر ی پڑھایاکرتے تھے ہڑتال کے با عث وہ پیریڈ تو نہیں لے سکتے تھے مگر وہ پیریڈ شروع ہوتے ہی کلاس میں آجاتے کوئی نہ کوئی اسائمنٹ دے کر چلے جاتے اور پھر بیچ بیچ میں آکر نظر دوڑاتے یوں انہوں نے اپنا ایک بھی پیریڈ ضائع نہیں ہونے دیا یہ احتجاج اورہڑتال کی تعمیری صورت تھی ہمارے دل سے آج بھی ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں مگر اب تو ہڑتال کو کوئی اور چیز ہی بنادیاگیاہے ہڑتال کا نام ذہن میں آتے ہی دنگا فساد،توڑ پھوڑ،لڑائی جھگڑا نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتاہے ہڑتال اپنے مطالبات پور ے کرنے کے لیے احتجاج کی آخری صورت ہواکرتی ہے کوشش کی جانی چاہئے کہ ہڑتا ل کی نوبت ہی نہ آئے مگر جب دونوں فریق ہی میں نہ مانوں والی روش اختیار کرنے پر تلے ہوئے ہوں تو پھر صورت حال ویسی ہی ہوجاتی ہے جو اس وقت پشاور یونیورسٹی میں بنی ہوئی ہے کسی زمانے میں پشاور یونیورسٹی کی مثالیں دی جاتی تھیں یہاں کے ماحول کو علم دوستی میں سب سے بڑھ کرخیال کیاجاتاتھا حتیٰ کہ ہمارے مرحوم استاد محترم ظہور احمد اعوان تو اس کو مادر علمی قراردیاکرتے تھے جامعہ پشاور محض ایک ادارہ نہیں بلکہ اگر دیکھاجائے تو کئی اداروں پرمشتمل واقعی علم کا منبع ہے جہاں اور بھی کئی جامعات،کالجز اور سکول کام کررہے ہیں یہاں پر پڑھانے والے بھی اب تک اپنے شاگردوں کی دعاؤں میں جگہ بنائے ہوئے ہیں یہ محض علم کامرکز نہیں بلکہ تربیت گاہ بھی ہوا کرتی تھی ایک وقت ایسا بھی آیاکہ اس جامعہ کے ایک استاد محتر م نے امریکیوں کے داخلہ پر پابندی تک عائد کردی تھی ہوا یوں کہ 1986ء میں امریکا نے لیبیا پر بمباری کی تھی ان دنوں پروفیسر محمد اقبال تاجک پیوٹا کے صدر تھے انہوں نے جنرل باڈی میٹنگ بلاکر قرارداد پاس کرائی کہ جامعہ پشاور انجینئر نگ یونیورسٹی اور جامعہ زرعیہ تینوں میں امریکی باشندوں کے داخلہ پر پابندی عائد کرد ی تھی یہ پابندی پھر تین سال تک عائد رہی ایسے دبنگ فیصلے تبھی ممکن ہوسکتے تھے کہ جب طلبہ اساتذہ اور ایڈمنسٹریشن ایک ہی صف میں ہو ا کرتے تھے حالات بدل گئے زندگی کاہر شعبہ زوال پذیر ہوتا چلاگیا تعلیم اور تعلیمی ادارے بھی اس کی زدمیں آنے سے بچ نہ سکے بعدازاں صوبہ میں نئے جامعات کی تعمیر کی ایک دوڑ شروع ہوگئی معیاراور بھی گرتاچلاگیا جامعات کی تعداد میں اضافہ نے مسائل میں بھی اضافہ کردیا اب تو حالت یہ ہے کہ ایچ ای سی کی طرف سے جامعات کے لیے فنڈنگ میں کمی نے طلبہ اساتذہ اور انتظامیہ سب کو پریشانی میں ڈالا ہواہے ان حالات میں جامعہ پشاور میں اساتذہ کی طرف سے جاری ہڑتال کو ایک مہینہ ہونے کو آرہاہے اساتذہ ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں کلاسز بند ہیں طلبہ دربدر ہیں ان کاقیمتی وقت ضائع ہورہاہے اساتذہ اور انتظامیہ کے مابین ڈیڈ لاک برقرارہے فریقین ایک دوسرے کو صورت حال کاذمہ دار قراردے رہے ہیں اساتذہ کامؤقف جو قدر وزنی بھی ہے یہ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ مراعات میں اضافہ کے بجائے مہنگائی کے اس دور میں موجودہ مراعات بھی واپس لی جارہی ہیں ظاہرہے کہ مہنگائی کے اس دور میں ملازمین شدید متاثر ہوئے ہیں اس لیے کوشش کی جانی چاہئے تھی کہ اس پریشانی کاکوئی حل نکالا جائے مگر ایسا نہ ہوسکا اور آخرکار نوبت ہڑتال تک پہنچ گئی جس کے باعث وہ طلبہ جو بھاری فیسیں دے کر یونیورسٹی اساتذہ اور انتظامیہ کی مراعات پوری کررہے ہیں انہی پرحصول علم کے دروازے بند کردیئے گئے ہیں اور اس کااحساس نہ تو اساتذہ کررہے ہیں نہ ہی انتظامیہ کاش کہ کوئی علوی صاحب جیسا استاد سامنے آکر مثال قائم کرنے کی کوشش کرتا کہ ہڑتال کے ساتھ ساتھ اپنے طلبہ کی علم کی پیاس بجھانے کی کوشش بھی کر تا سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس تمام تر صورت حال میں طلبہ اور ان کے والدین کاکیاقصور ہے کیا ان کا ضائع ہونے والا وقت واپس دلوایاجاسکے گا یا پھر اس مہینے کی فیس معاف ہوجائے گی ساتھ میں ان کے ہاسٹل کے اخراجات بھی انہیں واپس کردیئے جائیں تو اگر نہیں تو ضرورت ہے کہ فوری طورپر صوبائی حکومت اس معاملہ میں مداخلت کرے اس صورت حال کانوٹس لیاجاناضروری ہوچکاہے ہماری ان سطور کے ذریعہ گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی اور وزیر اعلیٰ ا عظم خان سے گذارش ہے کہ وہ آگے بڑھ کراپنا کردار ادا کریں گورنرچونکہ جامعات کے چانسلر بھی ہیں اس لیے ان پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس تمام تر صورت حال پر گورنر معائنہ ٹیم کے ذریعہ انکوائری کرائی جاسکتی ہے کہ کس فریق کاکتنا قصور ہے ظاہر ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں دودھ کادودھ اورپانی کاپانی کرنے کے لیے شفاف چھان بین ضروری ہے امید کی جانی چاہئے کہ گورنر خیبرپختونخوا طلبہ وطالبات کاقیمتی وقت ضائع ہونے سے بچانے کے لیے فوری مداخلت کرتے ہوئے نہ صرف صورتحال کانوٹس لیں گے بلکہ معاملہ کے حل کے لیے جامع اقدامات کو بھی ممکن بنائیں گے فریقین کو بھی اپنے اپنے مؤقف میں لچک لانا ہوگا کم از کم طلبہ کاوقت ضائع ہونے سے بچانے کے لیے سب کو اپنا کردار ادا کرناہوگا یہ ان کا اولین فرض بنتاہے کیونکہ جن کی وجہ سے فریقین مراعات اور تنخواہیں وصول کررہے ہیں اگر انہی کو نقصان پہنچ رہاہے تو پھر معاف کیجئے کوئی بھی فریق اپنے مؤقف کے حق میں کوئی بھی دلیل پیش نہیں کرسکتا اس لیے اب گورنر کو ہی آگے بڑھ کر کوئی راستہ نکالنا چاہئے۔