یہ مشکل آخری مشکل نہیں ہے

عکس نامی غیرسرکاری تنظیم (این جی او) کی جانب سے ’آن لائن (Zoom)‘ موضوعاتی نشست بعنوان ”پاکستان میں صحافت کی ازسرنو تشریح (وضاحت)“ جبکہ اِسی ذیل میں موضوع کا دوسرا جز ”خبرنگاری کے تعمیری پہلو کا وعدہ (اور اعادہ) خبرنگاری کو درپیش خطرات“ رکھا گیا تھا۔ اُنتیس مارچ دوہزارتئیس کے روز ’ایک گھنٹہ تیرہ منٹ‘ سے زائد جاری رہنے والی اِس نشست کی مکمل روداد (ریکارڈنگ) ’عکس ڈیجیٹل سٹوڈیو‘ نامی یوٹیوب چینل پر محفوظ ہے جہاں اظہار خیال کرنے والوں کو دیکھا اور اُن کے پُردرد خیالات اور پُر مغز نظریات کو حرف حرف سنا جا سکتا ہے۔ انگریزی اُردو اور اُردو انگریزی میں صحافت کرنے والے ملک کے چاروں صوبوں سے صحافیوں اور تجزیہ کار شخصیات شریک حال ہوئیں جنہوں نے برسرزمین حقائق اور خبرنگاری کو لاحق اُن خطرات کا بالخصوص احاطہ کیا جو ’سوشل میڈیا‘ کے اِردگرد گھوم رہی ہیں یا صحافت پر خطرے کی صورت منڈلا رہی ہیں حالانکہ اور اگرچہ نشست کا موضوع ’سوشل میڈیا‘ اور ’ناکافی و غیرتصدیق شدہ معلومات‘ کی بنیاد یا اِس کی روشنی  میں ہونے والی ’باسہولت خبرنگاری‘ نہیں تھا لیکن اچھا ہوا کہ چند ایسے ضمنی موضوعات پر بھی ’ملک گیر تبادلہ خیال‘ ہو گیا جو اپنی جگہ اہم ہے اور اُمید ہے کہ مستقبل قریب میں ’عکس‘ کی جانب سے اِس موضوع (اور سعی) کو مسلسل رکھتے ہوئے مزید ایسی نشستوں کا اہتمام کیا جائے گا تاکہ پاکستان میں کی جانے والی صحافت کو جدید تصورات کے آئینے (عکس و عکاسی کی پیرائے) میں دیکھا اور سمجھا جا سکے جو صحافیوں سے زیادہ اِس کی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے اہم ہے۔ اِس بارے میں بھی سوچنا چاہئے کہ صحافی اور صحافت کس طرح ’غیرجانبدار‘ رہ کر ملک و قوم کی خدمت‘ جمہوریت اور جمہوریت کی بنیاد سمجھے جانے والے اداروں کی کارکردگی کو عوام کے حق میں مفید بنا سکتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ حقیقت پسند (خوداحتسابی سے آشنا) صحافیوں کو دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ اپنی غیرجانبداری کا توازن کس طرح برقرار رکھتے ہوئے عوام اور حکومت کے درمیان صحافی ایک رابطے (communication) یا پُل (bridge) کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ صحافیوں کو اپنے رتبے اور مرتبے میں اِس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ وہ کسی ایک گروہ یا مؤقف کے وکیل نہیں ہوتے اور نہ ہی اِن کی غرض و غایت کسی ایک گروہ یا مؤقف کی ’وکالت (advocacy) ہوتی ہے۔ اِس مرحلہئ فکر پر ’سیاست اور سیاست دان‘ کی اصطلاحی تشریح کا بیان وضاحت کے لئے پیش کیا جا رہا ہے کہ اصطلاحاً سیاست دان اُس کردار کو کہا جاتا ہے جو اِختلافات ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکے کیونکہ یہی اختلافات بعدازاں تنازعات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور جہاں تنازعات ہوں وہاں معاشرتی و قومی ہر خوبی ’عدم استحکام‘ سے دوچار ہو جاتی ہے۔ضمنی موضوع یہ ہے کہ پاکستان میں صحافت کے ساتھ اُردو زبان کا مستقبل بھی جڑا ہوا ہے۔اس لئے صحافت میں زبان کے اسلوب کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ بے قابو زبان و بیان‘ بے قابو سیاست سے متاثر ہے جبکہ ضرورت ترقی پسند صحافت کی ہے  جہاں اجتماعی درد (قومی مفاد) کو انفرادی درد (ذاتی مفاد) پر ترجیح دی جائے۔ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ’ترقی پسند صحافت‘ سماجی جمالیات کی واضح آئین بندی میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ پاکستان میں صحافت ’دانش ِحاضر‘ کی طغیانی میں بہنے کی بجائے اگر عالمی شعور و اسلوب سے فائدہ اُٹھائے اور یہ تجربہ کامیاب نہ بھی ہو لیکن آزمائش شرط ہے کہ یہ تجربہ ’مشعل ِراہ‘ ثابت ہو سکتا ہے۔کیونکہ زندگی کے تمام شعبوں میں وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی واقع ہوتی رہی ہے اور صحافت کے شعبے کو بھی اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ شاعر حمید نسیم کی غزل کے مطلع میں ’محبت‘ کو ’صحافت‘ سے تبدیل کر دیا جائے تب بھی مدعا ادا ہو جاتا ہے جو اِس پوری بحث کا نچوڑ ہے کہ ”صحافت جادہ ہے منزل نہیں ہے …… یہ مشکل‘ آخری مشکل نہیں ہے۔‘