مختلف ممالک متفرق شعبہ ہائے زندگی میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ میں مصنوعی ذہانت کے الگورتھم کا استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ کسی مقدمے میں ممکنہ جوابی کاروائی کی پیش گوئی کی جا سکے جبکہ چین نے قانونی تحقیق اور فیصلہ سازی کے لئے مصنوعی ذہانت سے چلنے والے جج بھی تعینات کر دیئے ہیں جو مقدمے سے متعلق معلومات طلب کرتے ہیں اور اُن معلومات کی بنیاد پر فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ برطانیہ میں‘ قانونی تنازعات کو آن لائن حل کرنے کے لئے مصنوعی ذہانت کی ترقی سے فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے جبکہ کینیڈا میں کسی مقدمے سے متعلق معلومات کا حصول اور معلومات کی طلبی مصنوعی ذہانت کے استعمال سے حاصل کی جاتی ہے۔ آسٹریلیا عدالتی فیصلوں کا تجزیہ کرنے کے لئے مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہا ہے۔ سنگاپور اِسے قانونی تحقیق اور دستاویز مسودہ سازی میں مدد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات عدالتی طریقہ کار کے مراحل کم کرنے اور عدالت کی کارکردگی بہتر بڑھانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی سے کام لے رہا ہے۔ مزید برآں‘ کچھ تحقیقی مطالعات نے انصاف کے شعبے میں مقدمات نمٹانے پر مصنوعی ذہانت کے اثرات کی تحقیقات کی ہیں اور انصاف کے شعبے میں مقدمات نمٹانے میں لگنے والے وقت کو کم کرنے میں مصنوعی ذہانت کے نمایاں اثرات کی نشاندہی کی ہے۔ جہاں تک ’مصنوعی ذہانت‘ کا تعلق ہے تو اِس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے کام کاج کے طریقہ (الگورتھم) کو اگر متعصبانہ نتائج پیدا کرنے کا کہا جائے گا تو وہ ایسے ہی متعصب اعداد و شمار فراہم کرے گا اور قوانین کی غلط تشریح کرے گا۔ جس سے امتیازی طرز عمل اور غیر منصفانہ قانونی کاروائی سامنے آئے گی۔ اِس لئے مصنوعی ذہانت کا طریقہ ’الگورتھم‘ نہایت ہی رازداری سے بنایا جانا چاہئے۔ اس بات (امکان) کا خطرہ بھی موجود ہے کہ جب ہر قسم کی معلومات کمپیوٹروں کے حوالے کر دی جائیں گی تو اُن تک غیر مجاز افراد رسائی حاصل کر لیں گے اور اِس سے افراد کی حساس معلومات عام ہو جائے گی جن سے جرائم پیشہ اور دہشت گرد بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ عدالت کا کام صرف فیصلہ دینا ہی نہیں ہوتا بلکہ شفافیت اور احتساب کا احساس بھی دلانا ہوتا ہے کہ فریقین کو علم ہونا چاہئے کہ اُن کے مابین فیصلہ کس بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں قانونی اور اخلاقی غور و فکر بھی اہم ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اگر سزائیں دینے میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جائے تو اِس سے بڑی حد تک منصفانہ نتائج یقینی طور پر حاصل ہوں گے کیونکہ الگورتھم شفافیت اور درستگی کا مظہر ہوتے ہیں۔حرف آخر یہ ہے کہ مصنوعی ٹیکنالوجی اور مہارت کو قابل عمل و رسائی بنانے میں جس درجے کی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے شاید وہ موجودہ معاشی مسائل میں ممکن نہ ہو لیکن اِس سلسلے میں ترقی یافتہ دوست ممالک سے تکنیکی مدد کے لئے درخواست کی جا سکتی ہے جو پہلے ہی انصاف تک رسائی کو آسان بنانے اور اِس سے متعلق مختلف منصوبوں کی مالی معاونت کر چکے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ مصنوعی ذہانت اور اس کے ممکنہ فوائد کی تفہیم بہتر بنانے کے لئے‘ قانونی پیشہ ور افراد کی تعلیم و تربیت اور انہیں روزمرہ کے کام کاج میں مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ٹولز (tools) کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی جانب راغب کیا جائے۔ اِس سلسلے میں پہلا قدم اخلاقی رہنما خطوط اور معیارات تیار کرنا ہے جو قانونی کاروائیوں میں مصنوعی ذہانت کے ذمہ دارانہ اور شفاف استعمال کو یقینی بنائے۔ یہ بات بھی یقینی بنانا ہوگی کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال شفاف اور قابل وضاحت ہونے کے ساتھ جوابدہ بھی ہو جس کے لئے ضمنی پالیسیاں اور قواعد و ضوابط تیار کئے جا سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت میں سرمایہ کاری درحقیقت مستقبل میں سرمایہ کاری ہے‘ جس سے جدت کے نئے پہلوؤں سے شناسائی‘ نئے مواقع کی نشاندہی اور مصنوعی ذہانت کے بل بوتے پر ترقی کے ساتھ اُبھرنے والے چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔