ان دنوں عالمی سطح پر تیل کی سپلائی میں کمی کے بین الاقوامی معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات زیر بحث ہیں۔ امریکہ کے لئے یہ ایک نیا درد سر سامنے آیا ہے کہ تیل کی قیمتوں پر کنٹرول اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور جن ممالک کے ساتھ اس کی نہیں لگتی وہ تیل کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے لگے ہیں خاص طور پر روس اور سعودی عرب کے قریبی تعلقات امریکہ کے لئے پریشانی کا باعث ہیں‘عالمی سطح پر خام تیل برآمد کرنے والے سب سے بڑے ملکوں نے اچانک یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی پیداوار کم کریں گے جس سے دنیا بھر میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔سعودی عرب، عراق اور تیل پیدا کرنے والے کئی خلیجی ممالک ایک ساتھ یومیہ 10 لاکھ بیرل تک کی سپلائی کم کریں گے۔ جبکہ روس، جو کہ اوپیک پلس گروپ کا رکن ہے، اگلے سال کے اختتام تک یومیہ پانچ لاکھ بیرل تک کی سپلائی کم کر دے گا۔اوپیک پلس گروپ میں تیل درآمد کرنے والے 23 ملک شامل ہیں جو اپنے اجلاسوں میں یہ فیصلے کرتے ہیں کہ عالمی منڈی میں کتنا خام تیل فروخت کرنا ہے۔اس گروپ کے 13 ارکان اہم ہیں جو کہ آرگنائزیشن آف آئل ایکسپورٹنگ کنٹریز کا حصہ ہیں اور ان میں مشرق وسطی اور افریقی ممالک شامل ہیں۔ اوپیک کو 1960 میں ایک گروہ کی شکل میں قائم کیا گیا تاکہ عالمی سطح پر خام تیل کی سپلائی اور قیمت کا تعین کیا جا سکے۔اوپیک میں شامل ممالک عالمی سطح پر 30 فیصد خام تیل پیدا کرتے ہیں۔ سعودی عرب اوپیک میں سب سے زیادہ خام تیل پیدا کرنے والا ملک ہے جو کہ یومیہ ایک کروڑ بیرل سے زیادہ تیل پیدا کرتا ہے۔سال 2016 میں جب عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کم تھیں تو اوپیک نے 10 مزید ممالک کو اپنے نیٹ ورک میں شامل کر کے اوپیک پلس قائم کیا تھا۔نئے شامل ہونے والے اراکین میں روس بھی شامل ہے جو یومیہ ایک کروڑ بیرل تیل پیدا کرتا ہے۔یہ ملک ایک ساتھ عالمی سطح پر قریب 40 فیصد خام تیل پیدا کرتے ہیں۔دی انرجی انسٹیٹیوٹ کی کیٹ ڈوریان کہتی ہیں کہ اوپیک پلس منڈی میں توازن برقرار رکھنے کے لیے طلب اور رسد کی نگرانی کرتا ہے۔اکتوبر 2022 میں یومیہ 20 لاکھ بیرل کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ اس بار یومیہ 10 لاکھ سے زیادہ بیرل کی پیداوار کم کی گئی ہے۔اس سے فورا ًعالمی منڈیوں میں خام تیل کی قیمت میں پانچ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ڈرویان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اچانک ہوا کیونکہ سعودی عرب نے حال ہی میں رواں سال پیداواری کوٹا برقرار رکھنے کی بات کی تھی۔ممکن ہے کہ اوپیک پلس نے احتیاطا ًیہ فیصلہ کیا کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ سابقہ پیشگوئی کے برعکس تیل کی طلب اس قدر زیادہ نہ ہو۔ 2020 میں اوپیک پلس نے عالمی وبا کے ردعمل میں یومیہ 90 لاکھ سے زیادہ بیرل کم کیے تھے۔ ملکوں کی جانب سے لاک ڈاؤن کے نفاذ سے خام تیل کی قیمتیں گِر گئی تھیں کیونکہ خریدار کم تھے۔یوکرین میں روس کی مداخلت کے بعد قیمتیں 130 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچیں مگر رواں سال مارچ میں یہ 15 ماہ کی کم ترین سطح، 70 ڈالر فی بیرل، تک نیچے آ گئیں۔روس کی یوکرین میں مداخلت کے بعد یورپی یونین کے ممالک نے سمندری راستے سے روسی تیل درآمد کرنا بند کر دیا۔ جبکہ امریکہ اور برطانیہ نے روسی تیل کا مکمل بائیکاٹ کیا۔
عالمی معیشت میں تیل کی قیمتوں کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ایک وقت تھا کہ امریکہ مشرقی وسطی میں اپنے اثرورسوخ کو استعمال میں لاتے ہوئے تیل کی قیمتوں کو کنٹرول کرتا اور جب چاہتا تیل کی پیداوار میں اضافے یا کمی جیسے عوامل سے فائدہ اٹھاتا تاہم اب عالمی منظرنامے پر واقع ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں چین‘ روس اور مشرقی وسطی کے ممالک کے درمیان تعلقات نے ایک نئی صورت اختیار کرلی ہے جس سے امریکہ کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس وقت روس اور سعودی عرب سمیت اوپیک ممالک نے تیل کی پیداوار میں جو کمی کی ہے اس میں امریکی رائے کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ نے اس پیش رفت پر تنقید کی ہے۔