بارشیں: زرعی نقصانات

حالیہ بارشوں سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات کے حوالے سے رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں زرعی حکام کے فراہم کردہ اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے اندازہ لگایا گیا ہے کہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں حالیہ شدید بارش اور ژالہ باری سے گندم کی پانچ سے چھ فیصد فصل کا نقصان ہوا ہے یہ نقصان کس قدر بڑا ہے اِس کا اندازہ مالیت سے لگایا جا سکتا ہے جو ’23 ارب روپے‘ بتایا گیا ہے! ذہن نشین رہے کہ رواں ماہ (اپریل دوہزارتئیس) کئی اضلاع میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران بارش اور ژالہ باری ہوتی رہی‘ جس کے نتیجے میں پودے جڑ سے اکھڑ گئے اور تقریباً پچاس فیصد کھڑی فصلیں بیٹھ گئیں جبکہ کسانوں نے اندازہ لگایا کہ ہے بیٹھ جانے والی فصل کا ستر فیصد متاثر ہوا ہے۔ محکمہ زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق تیس مارچ دوہزارتیئس تک ہونے والی بارشوں میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ چودہ ہزار ایکڑ رقبے پر کاشت گندم میں سے آٹھ لاکھ ایکڑ پر جزوی نقصان ہوا ہے اور تیس ہزار ایکڑ پر مکمل پر تباہی ہوئی ہے۔ پنجاب کروپ رپورٹنگ سروس کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ متاثرہ ہونے والے علاقوں میں شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب کے اضلاع ہیں جہاں فصلوں کے نقصان کا اندازہ تقریباً چالیس فیصد لگایا گیا ہے‘ جس کے بعد مظفر گڑھ میں پندرہ فیصد‘ ساہیوال میں چودہ فیصد‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں تیرہ فیصد‘ اوکاڑہ میں ساڑھے بارہ فیصد بھکر میں ساڑھے دس فیصد‘ پاک پتن میں دس فیصد جبکہ پانچ اضلاع میں نقصان دس فیصد سے کم ہوا ہے اور دیگر علاقوں میں غیرمعمولی نقصان رپورٹ ہوا ہے۔ بارش سے متاثرہ علاقوں میں بیس فیصد گندم کی پیداوار جزوی طور پر تباہ ہوئی ہے جہاں عمومی حالات میں فی ایکڑ سے اوسطاً اکتیس من سے چوبیس من پیداوار حاصل ہوتی ہے اور یوں دستیاب اعداد و شمار کے مطابق مجموعی نقصان دو لاکھ چھتیس ہزار ٹن ہے جس کی مالیت فی من تین ہزار نو سو روپے کے حساب سے تیئس ارب روپے بنتی ہے۔ گندم پنجاب کی بنیادی فصل ہے اور نقصان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک میں مہنگائی کے ڈیرے ہیں اور عالمی سطح پر غیریقینی صورت حال کی وجہ سے فوڈ سیکورٹی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ دوسری جانب کسانوں نے مذکورہ اعداد وشمار پر سوالات اٹھائے ہیں اور دعویٰ کیا کہ اصل نقصانات سرکاری اندازوں سے کہیں زیادہ ہوئے ہیں۔کسان اتحاد پاکستان کے صدر رواں ہفتے پشاور تشریف لائے اور انہوں نے صحافیوں 
 سے ملاقات میں کہا ہے ”ملتان سے اسلام آباد تک ان کے سفر کے دوران انہیں مختلف اضلاع میں گندم کی فصل بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ مخصوص علاقوں میں ژالہ باری اور طوفان سے ستر فیصد فصلیں بیٹھ گئی ہیں اور خدشہ ہے کہ فی ایکٹر پندرہ من کا نقصان ہوا ہے۔ بارشوں کے تسلسل سے قبل فصلیں گزشتہ برس کے مقابلے میں بہت اچھی تھیں‘ موسم بھی گندم کے لئے موزوں تھا اور مارچ کے اوائل میں ہلکی بارش سے پودوں کو کھاد دینے میں مدد ملی جس کی وجہ سے فصل بہتر ہوئی لیکن حالیہ بارشوں اور بالخصوص ژالہ باری سے تباہی ہوئی اور کسانوں کو ایک زبردست فصل کی کٹائی کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ذہن نشین رہے کہ جب پنجاب میں گندم کی فصل متاثر ہوتی ہے تو اُس کا نقصان پورے دیگر صوبوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے کیونکہ  پنجاب سے گندم پر پورا ملک انحصار کرتا ہے اور حالیہ نقصانات کی وجہ سے گندم کی فراہمی پر منفی اثر پڑے گا۔ قابل ذکر ہے کہ ”فصل بیٹھ جانے“ کا مطلب مکمل نقصان نہیں ہوتا۔ اگر پودا زندہ ہے یہاں تک کہ زمین سے تیس فیصد کے زاویئے پر بھی ہو تو یہ پریشانی کی بات نہیں ہوتی لیکن اگر پودا مکمل طور پر گیلی زمین سے لگ جائے تو پھر اِس کے خوشوں پر لگی گندم خراب ہو جاتی ہے اور دھوپ سے پک نہیں پاتی۔ بارشیں ایک ایسے وقت میں ہوئیں جبکہ گندم کی فصل کو کھلی ہوئی دھوپ کی ضرورت تھی لیکن اِس سال غیرمتوقع طور پر مارچ اُور اپریل کے شروع میں مطلع ابرآلود رہا ہے اُور بارش کے ساتھ ژالہ باری بھی ہو رہی ہے۔ پشاور کے مختلف علاقوں میں بھی پانچ اپریل کی شب ژالہ باری ہوئی اُور چونکہ ضلع پشاور بھی زرعی پیداوار رکھتا ہے اِس لئے زرعی نقصانات ہوئے ہیں تاہم اِس سلسلے میں تفصیلات آنے میں وقت لگے گا۔ گندم کی فصل کے لئے پریشان کن وقت جنوری کا آخری ہفتہ اور فروری کا پہلا ہفتہ رہا جب اوسط درجہ حرارت گزشتہ برس کے اسی عرصے کے مقابلے میں 5.9 ڈگری زیادہ رہا۔
 موجودہ صورتحال میں اگر بیٹھی ہوئی فصل کی کٹائی میں خیال نہیں رکھا گیا تو مزید دس فیصد نقصان ہوجائے گا۔ بیٹھی ہوئی گندم کی کٹائی کاشت کار نہیں کرسکتے‘ اِس کے لئے اُنہیں مزدوروں کی خدمات حاصل کرنی پڑتی ہیں اُور ایک ایسی فصل پر مزید خرچ کرنا کاشتکاروں کے لئے مالی طور پر ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حکومت کو مداخلت کرکے بارشوں سے ہوئے زرعی نقصانات کو کم کرنے میں کردار ادا کرنا چاہئے۔
موسمیاتی تبدیلیاں ظہور پذیر ہو رہی ہیں۔ شدید موسمی واقعات جیسا کہ سیلاب اور خشک سالی پاکستان کے زرعی شعبے پر نمایاں منفی معاشی اثرات مرتب کر رہے ہیں کیونکہ فصلیں درجہ حرارت اور پانی کی دستیابی میں تغیرات کا شکار ہوتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ایک رپورٹ جاری ہوئی ہے جس کے مطابق پاکستان کا پہاڑی علاقہ گلیشیئرز کے پگھلنے‘ درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ بارشوں میں انتہائی تبدیلیوں‘ ملک میں سیلاب اور خشک سالی کے خطرے میں اضافے کا خطرہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے زرعی علاقے میں درجہ حرارت 0.5 سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھنے سے زرعی پیداوار میں آٹھ سے دس فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔ حالیہ سیلاب نے ایک اندازے کے مطابق دو اعشاریہ چار ملین ہیکٹر زمین پر کھڑی فصلوں (مکئی‘ چاول‘ سبزی‘ گنا‘ چارہ اور کپاس) کو نقصان پہنچایا اور بارہ لاکھ سے زیادہ مویشیوں کو ہلاک کیا‘ جس سے ایک کروڑ اَسی لاکھ سے زیادہ افراد کی زندگیاں متاثر ہوئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان موسمیاتی خشک سالی کا بھی شکار ہے جو عام طور پر بارشوں میں کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں شدید موسمی خشک سالی کا سالانہ اوسط امکان تقریبا تین فیصد ہے۔ ایک اور مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان دنیا کے اس خطے میں واقع ہے جہاں زرعی پیداوار میں تیزی سے کمی آ رہی ہے اُور یہ آنے والے سالوں میں بڑھتی چلی جائے گی۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے سال دوہزارچالیس تک پاکستان کی زرعی پیداوار میں آٹھ سے دس فیصد تک کمی آئے گی جس کا سب سے زیادہ نقصان گندم کی فصل کو ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان میں ”غذائی عدم تحفظ“ پیدا ہو رہا ہے۔ سیلاب کے بعد اجناس کی زیادہ (بلند) قیمتوں نے زیادہ بڑی تعداد میں لوگوں کو غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔