بڑا قدم 

دنیا کے اکثرترقی یافتہ ممالک میں حقیقی فلاحی ریاستیں قائم ہیں جہاں پر تکریم انسانیت اور احترام آدمیت عروج پرہے ا ن کیلئے اپنے شہریوں سے بڑھ کرکچھ بھی اہم نہیں اور شہریو ں کیلئے ہرحد تک جانے کے لئے تیار رہتی ہیں ان فلاحی ریاستوں میں جس گھرانے میں کوئی معذور با الفاظ دیگر خصوصی بچہ پیدا ہوتاہے تو دیگر گھرانوں کی نسبت اس کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے چونکہ وہاں انسانیت زندہ ہے اسی لئے جب کسی کے ہاں خصوصی بچہ پیداہوتاہے تو دیگر عام بچوں کی نسبت اس کے لئے زیادہ الاؤنس مقرر کیا جاتا ہے تاکہ اس کے والدین ضرورت پڑنے پر اس کے لئے کسی نرس کابندوبست کرسکیں کیونکہ ان ممالک میں مرد عورت دونوں کی تلاش معاش میں گھرسے باہر ہوتے ہیں اس لئے ان کامسئلہ حل کرنے کے لئے زیادہ الاؤنس مقرر کیا جاتاہے اب اگر اسی تناظر میں ہم اپنے ملک کی حالت دیکھیں تو افسوس ہی ہوتاہے کیونکہ یہاں خصوصی بچے سب سے زیادہ استحصال کاشکار ہیں پاکستان کی کل آبادی کا 7 فیصد حصہ ذہنی و جسمانی معذوری سے گزر رہا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ڈیکلریشن (1948ء) سے لے کر اکیسویں صدی کے ترقیاتی اہداف تک تمام معاہدوں میں پوری دنیا کو یقین دلایا کہ ہم اپنے بچوں کے تمام حقوق قطع نظر اس کے کہ وہ معذور ہیں یا نہیں‘ کا تحفظ کرینگے مگر کسی نے اس پہلو کی جانب توجہ نہیں دی کہ خصوصی بچوں کی تعلیم کے بغیر اس ہدف کو حاصل نہیں کیا جاسکتا معیاری تعلیم ہر عام بچے کی طرح معذور بچے کا بھی حق ہے لیکن شاید ہی کسی سکول، کالج اور یونیورسٹی نے اس کا اہتمام کرنے کیلئے اپنے وسائل کا کچھ حصہ ان کو تعلیم اور ہنر دینے پرصرف کیا ہوخصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت کے فقدان کی تین وجوہات ہیں، والدین اور معاشرے کی عدم دلچسپی،معاشی اور نفسیاتی مسائل اور اْس پر ستم یہ کہ ایسے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ادارے پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں اگر کچھ نظر بھی آتے ہیں تو وہ صرف بڑے شہروں تک محدود اور کافی حد تک وسائل کی کمی کا شکار ہیں جبکہ دیہات میں ان بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ایسے بچوں کیلئے قائم سکول، اداروں اور اساتذہ کی تعداد بہت کم ہے جبکہ بچوں کی تعداد زیادہ ہے پاکستانی معاشرے کا مجموعی رویہ اس حوالے سے انتہائی مایوس کن ہے‘ایک جائزے کے مطابق اس وقت پاکستان بھر میں ایک کروڑ بچے ایسے ہیں جو تعلیم سے صرف اس لئے محروم ہیں کہ انہیں معمولی یا درمیانے درجے کی معذوری کا سامنا ہے جس کی وجہ سے سرکاری سکولوں میں ان کا داخلہ دشوارہے جب کہ خصوصی تعلیمی مراکز کے پاس اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو سنبھالنے کی استطاعت نہیں‘یہ بچے صحت مند انسانوں کی طرح تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود اکثر بچوں کے والدین انہیں عام سکولوں میں بھیجنے سے ہچکچاتے ہیں یا پھربعض اوقات سکولوں میں بھی انکے لئے ماحول دوستانہ نہیں ہوتا‘اسکانتیجہ یہ ہے کہ کئی ہونہار بچے ناخواندہ رہ جاتے ہیں اور وقت گزرنے کیساتھ ساتھ احساس کمتری کا شکار ہو کر ان کی صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ملک کا آئین معمولی معذوری کا شکار ایسے بچوں کی عام سکولوں میں تعلیمی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کرنیکی اجازت نہیں دیتاوالدین کسی نہ کسی طریقے سے اپنے خصوصی بچوں کو میٹر ک تک توپڑھالیتے ہیں اس کے بعد ان کی ہمت جواب دے جاتی ہے کیونکہ  ہمارے یہاں میٹرک کے بعد مہنگی تعلیم کاآغاز ہوجاتا ہے۔ یہی صورت حال معذور بچوں کے حوالے سے بھی نظر آتی ہے‘معذور بچوں کا سلبیس اور طریقہ تعلیم مختلف ہوتا ہے۔ اکثر معذور بچے عام سکولوں یا کالجز میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔ان حالات میں گذشتہ روز میڈیا میں آنے والی ایک خبرتازہ ہوا کاجھونکا ثابت ہوئی ہے جس کے مطابق گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے صوبہ کے معذور اور خصوصی بچوں کو میڈیکل کے شعبہ میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے کیلئے  بڑا اقدام اٹھا لیا۔ گورنر نے خیبر میڈیکل یونیورسٹی کو میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں معذور بچوں کیلئے خصوصی سیٹیں پیدا کرنیکی ہدایت کر دی جس پر وائس چانسلر خیبر میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق نے فوری طور پر عملدرآمد کرتے ہوئے پبلک سیکٹرز میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں معذور و خصوصی بچوں کے داخلہ کیلئے پہلے سے موجود مختص سیٹوں کے علاوہ مزید خصوصی سیٹیں پیدا کرنیکی منظوری دے دی، معذور بچوں کیلئے مختص سیٹیں نرسنگ، فزیوتھراپی، الائیڈ ہیلتھ سائنسز اور فارما ڈی سمیت تمام ہیلتھ اکیڈیمک پروفیشنل پروگراموں میں داخلہ کیلئے پیدا کی گئی ہیں اہم بات یہ ہے کہ گورنر کی ہدایت پر معذور بچوں سے میڈیکل /ڈینٹل کالجز میں اوپن میرٹ یا مخصوص نشست پر داخلہ کی مد میں فیس بھی نہیں لی جائے گی۔ اس حوالے سے گورنر خیبرپختونخواحاجی غلام علی کا کہناتھاکہ وہ خصوصی و معذور بچوں کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں مختص سیٹوں سے معذور و خصوصی بچے میڈیکل کی تعلیم حاصل کر پائیں گے اور فیسوں کی مد میں اخراجات کا بھی ان پر اوران کے والدین پربوجھ نہیں بنے گا۔گورنر کا کہنا تھا کہ انکی دلی خواہش ہے کہ خصوصی و معذور بچے میڈیکل سمیت کسی بھی تعلیمی شعبہ میں پیچھے نہ رہیں اور معذور بچوں کو زندگی کے کسی بھی شعبہ میں احساس محرومی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔گورنر نے وائس چانسلر خیبر میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ضیاء  الحق اور انکی ٹیم کو معذور بچوں کو داخلہ اور فیسوں میں سہولیات کی فراہمی سے متعلق فوری عملدرآمد پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ کے ایم یو معذور طالب علموں کو ہر ممکن طبی تعلیمی سہولیات کی فراہمی میں اپنا بہترین کردار ادا کرتی رہے گی و اضح رہے کہ  گورنر کی جانب سے اس سے قبل تمام یونیورسٹیوں کو یہ  ہدایت بھی جاری کی گئی تھی کہ ملازمتوں میں معذور افراد کے 2 فیصد اور خواتین کے طے شدہ کوٹہ پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے جہاں تک گورنر کے اس اقدام کاتعلق ہے تو یقینا یہ نہ صرف قابل ستائش بلکہ قابل تقلید بھی ہے ماضی میں کسی بھی حکومت نے اس جانب توجہ دینے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی موجودہ گورنر نے نہ صرف کوٹہ مختص کرایا بلکہ داخلہ فیس بھی معاف کردی جس سے ہزاروں خصوصی طالبعلم مستفید ہوسکیں گے اس کے بعد اب صوبائی حکومت کو بھی آگے بڑھ کر کردارادا کرناچاہئے خصوصی بچوں کے لئے صوبہ کے تمام سرکاری تعلیمی اداروں (سکول و کالج)میں اسی طرح کوٹہ مختص کیاجائے اور اس سے بھی بڑھ کر لاکھوں کروڑوں کمانے والے نجی تعلیمی اداروں کو بھی اس امر کا پابند بنایا جائے کہ وہ نہ صرف خصوصی بچوں کے لئے کوٹہ مختص کریں بلکہ ان کو مفت تعلیم کاحق دیں ہمیں امید ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ اعظم خان اور نگران مشیرتعلیم رحمت سلام خٹک اس سلسلے میں جلدہی اہم اقداما ت کویقینی بنانے کے لئے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کریں گے۔