افغانستان میں امریکہ کی دفاعی حکمت عملی کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لینے کیلئے اُس خصوصی شعبے کی خدمات سے استفادہ کیا گیا جسے عرف عام میں ’اسپیشل انسپکٹر جنرل‘ کہا جاتا ہے‘اِس شعبے کو بنیادی طور پر ’افغانستان میں تعمیر نو‘ کیلئے قائم کیا گیا تھا امریکی اسپیشل انسپکٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں افغانستان کے محاذ پر ہونیوالی ناکامیوں کی وجوہات کی نشاندہی کی ہے‘ ظاہر سی بات ہے کہ اِس پوری تحقیقی کوشش میں افغانستان کے ماضی و حال کو ’امریکی نقطہئ نظر‘ سے دیکھا گیا ہے‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2002ء میں اِس بات کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ افغان فوج (جنہیں امریکی ”افغان نیشنل ڈیفینس اینڈ سکیورٹی فورسز (ANDSF)“ کہتے ہیں) کو ازسرنو تربیت اور جدید خطوط پر منظم کیا جائے‘ افغان فوج کی یہ تربیت اِس لئے کی گئی تھی کہ طالبان دوبارہ اقتدار میں نہ آ سکیں اس سلسلے میں اتحادی ممالک کو ذمہ داریاں سونپی گئیں جیسا کہ جرمنی کو افغان نیشنل پولیس (ANP) میں اصلاحات کی ذمہ داری سونپی گئی منشیات کے انسداد کے لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے کا الگ شعبہ قائم کر کے اُن کی تکنیکی تربیت اور سازوسامان کی فراہمی برطانیہ کے حصے میں آئی‘ عدالتی نظام میں اصلاحات کا کام اٹلی کو سپرد ہوا جبکہ جاپان نے ”تخفیف اسلحہ‘ ڈی موبلائزیشن اور دوبارہ انضمام“ جیسی ضروریات پر نظرثانی اور اِن کے حوالے سے اصلاحات کا بیڑا اُٹھایا‘ تصور کیا جا سکتا ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے کتنی محنت و توجہ سے افغانستان کی ’تعمیر نو‘ میں ہر لحاظ سے سرمایہ کاری کی لیکن اِس کے باوجود اگر اُنہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور افغان طالبان بنا کسی مزاحمت پھر سے اقتدار میں آ گئے ہیں تو یہ نتیجہ امریکہ کے لئے قابل ہضم نہیں بالخصوص امریکہ کے قانون ساز اور ذرائع ابلاغ مسلسل سوال اُٹھا رہے ہیں‘ایسے بہت سے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لئے تعمیرنو کے انسپکٹر جنرل دفتر کو تحقیق کی ذمہ داری سونپی گئی تھی؛ مذکورہ رپورٹ میں وہ کچھ بھی شامل کیا گیا ہے جو اِس سے قبل صیغہئ راز میں رکھا گیا تھا‘ امریکہ کی اسپیشل فورسز نے افغان نیشنل آرمی کی تشکیل اور تربیت کا کام مئی 2002ء میں شروع کیا‘ تربیت کے اِس عمل کو چھوٹے پیمانے سے بڑے پیمانے تک بتدریج وسعت دی گئی بالخصوص فوج کی نقل و حرکت اور سازوسامان کی نقل و حمل (لاجسٹکس) جیسی صلاحیتوں کو بہتر بنانے پر توجہ دی گئی تاہم اِس غلطی کا اعتراف کیا گیا ہے کہ عراق میں ایک نیا محاذ جنگ کھلنے کی وجہ سے اِس تربیتی کوشش کو ادھورا چھوڑ کر 2003ء میں خصوصی ڈویژن کو عراق منتقل کیا گیا تو کام کاج آرمی نیشنل گارڈ یونٹس کو منتقل کر دیا گیا۔ 2005ء میں محسوس کیا گیا کہ افغان فوج کے مختلف حصے بنا کر تربیت کا عمل خاطرخواہ کامیابی سے آگے نہیں بڑھ رہا اِس لئے 2006ء میں اے این ڈی ایس ایف کی تربیت‘ مشاورت‘ معاونت اور اِسے جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کیلئے ”کمبائنڈ سکیورٹی ٹرانزیشن کمانڈ افغانستان“ نامی بندوبست متعارف کرایا گیا؛جب یہ ساری کوششیں ہو رہی تھیں اُس وقت افغان طالبان کے حملوں میں تیزی آئی‘ امریکی اور کے اتحادی نیٹو تنظیم کے رکن ممالک نے عدم تحفظ و سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے تربیت کا دورانیہ اُور تکنیکی امداد کا سلسلہ محدود کردیا۔ اِس کے بھی افغان فوج پر منفی اثر پڑے رپورٹ میں کہا گیا امریکہ اور نیٹو افواج نے افغانستان سے مرحلہ وار انخلأ شروع کیا تو افغان فوج کو طالبان کا اپنے طور پر سامنا کرناپڑا اُور یہی وہ وقت تھا جب امریکہ کی فوجی کمان میں بھی تبدیلیاں کی گئیں جس سے طالبان کو فائدہ ہوا افغان فوجیوں کے حوصلے پست ہوئے۔ طالبان نے دارالحکومت کابل تک پہنچنے سے پہلے سال 2015ء میں کامیابیاں حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا‘ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کبھی بھی افغانستان میں کامیاب نہیں ہوا البتہ اُس کی ناکامیوں کا آغاز سال 2015ء میں شروع ہو گیا تھا۔