پشاور کہانی: نکاسیئ آب‘ متبادل نظام 

پشاور میں نکاسیئ آب کے لئے نہروں کا استعمال روکنے اور متبادل نکاسیئ آب کا نظام وضع کرنے سے متعلق  احکامات کے بعد ’غور و خوض‘ کا عمل شروع ہوا تاہم حسب توقع ’غیرمعمولی سستی‘ کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے ڈھائی ارب روپے کے اِس ترقیاتی منصوبے کی قیمت 8 ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔ پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے فیصلہ سازوں نے نہروں میں پھینکا جانے والا پانی فوری طور پر روکنے اور اِس کا رخ موجود نظام کی طرف موڑنے کی بجائے ’نیا نظام‘ وضع کرنے کو ضروری سمجھا اور اِس حکمت عملی کے مختلف پہلوؤں پر غوروخوض کیا جانے لگا۔ ذہن نشین رہے کہ عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) نے حکم دیا تھا کہ پشاور سے گزرنے والا نہری نظام جو بنیادی طور پر آبپاشی (زرعی مقاصد) کی ضروریات کے لئے وضع کیا گیا تھا اور ایک وقت میں یہ نظام اِس قدر صاف و شفاف پانی کی ترسیل کرتا تھا کہ اہل پشاور پینے کے لئے اِس سے پانی حاصل کرتے تھے لیکن شہری منصوبہ بندی اور قواعد و ضوابط کا اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے وہ صاف پانی جو افغانستان سے داخل ہو کر ورسک ڈیم میں ذخیرہ ہونے کے بعد پشاور کے نہری نظام میں پھینک کر پانی کا ایک نیا سفر شروع کیا جاتا ہے تو اِس سفر کے مراحل میں اِسے آلودہ کر دیا جاتا ہے اور یہ آلودگی صرف گھروں سے آنے والا فضلہ ہی نہیں بلکہ کیمیائی مادے بھی اِسی میں بہائے جاتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اِس آلودہ پانی سے کاشت ہونے والی وادیئ پشاور کی فصلیں اور سبزی میں دھاتوں کی تعداد میں اِس حد تک اضافہ ہو گیا ہے کہ یہ مضرصحت قرار دی گئی ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ اہل پشاور ایک طرف صاف پانی آلودہ کر کے اپنا ہی خسارہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف اِسی آلودہ پانی سے آبیاری کے باعث حاصل ہونے والی زرعی پیداوار استعمال کر کے بھی اپنی ہی صحت کا نقصان کر رہے ہیں لیکن اِس حوالے سے خاطرخواہ شعور نہیں رکھتے۔پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (PDA) نے پشاور میں نکاسیئ آب اور آبی گزرگاہوں کو الگ الگ کرنے کے لئے ایک لائحہ عمل مرتب کیا ہے جس پر عمل درآمد کے بعد سیوریج نہروں میں پھینکنے کی بجائے متبادل طور پر الگ نظام میں ڈالا جائے گا اور اِس نظام کا بنیادی مقصد پشاور ہائی کورٹ کے حکم نامے پر عمل درآمد ہے جس نے خیبر پختونخوا حکومت کو ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ آبپاش نہروں کو آلودگی سے بچایا جائے۔ توجہ طلب ہے کہ جب
 ہم ’آبپاشی کے متبادل نظام‘ کی بات کرتے ہیں تو اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ ایک نظام پہلے سے موجود ہے اور اِس موجودہ نظام (جسے عرف عام میں شاہی کٹھہ کہا جاتا ہے) کی کل لمبائی 10 کلومیٹر اور چوڑائی 8 فٹ ہے جو کوہاٹی گیٹ سے شروع ہو کر شاہی باغ کے راستے گزرتے ہوئے مضافاتی بڈھنی نالے میں جا گرتا ہے اور اِس نالے سے اندرون و بیرون شہر کے علاقوں کو نالیوں کے ذریعے جوڑا گیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ شاہی کھٹہ 19ویں صدی میں تعمیر ہوا تھا اور اِس کی تعمیر کو 100 سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن یہ اب بھی فعال ہے اور اگر شاہی کھٹے پر موجود تجاوزات ختم کر کے اِس 8 فٹ چوڑے نالے کو جہاں سے جہاں سے ڈھانپا گیا ہے وہاں سے وہاں سے واگزار کرایا جائے تو نیا نظام وضع کرنے کے لئے 8 ارب روپے جیسی خطیر رقم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے نظام کی تعمیر میں کئی سڑکیں متاثر ہوں گی اس لئے صرف نکاسیئ آب کے متبادل نالے ہی کے لئے نہیں بلکہ شاہراؤں کی دوبارہ تعمیر کے لئے بھی فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ اِسی طرح نئے نالے سے متاثرہ سڑکوں کی بحالی کے علاؤہ بجلی اور دیگر سہولیات کی فراہمی اور اس منصوبے کے لئے زمین کی خریداری سے بھی تعمیراتی لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ پشاور شہر کے وسائل پر آبادی کا بوجھ کم کرنا ممکن نہیں رہا۔
 رہائشی علاقوں کے وسط میں کثیرالمنزلہ عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں‘ جس سے پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور نکاسیئ آب کے نظام پر آبادی کے ساتھ انحصار بھی بڑھ رہا ہے اور ایسی صورت میں شہری قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل درآمد‘ شعور و آگہی میں اضافے اور دستیاب وسائل کو ترقی دینی چاہئے۔ اِس سلسلے میں شاہی کھٹے سے تجاوزات کے خاتمے سے ایک ایسا نظام بحال کیا جا سکتا ہے جو نکاسیئ آب کا ’کم خرچ بالا نشین اور پائیدار حل ہے۔
امریکہ کی انوئرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے تحقیقی
 جریدے (جرنل) ’ہیلتھ اینڈ انوئرمینٹل ریسرچ آن لائن (HERO)‘ میں پشاور سے متعلق ایک مطالعہ سال 2018ء کے دوران شائع ہوا۔ نمبرشمار کے مطابق اِس تحقیق کا نمبر ’6940820‘ ہے اور اِس میں پشاور کے نکاسیئ آب کے تین نالوں سے پانی کے نمونے حاصل کئے گئے۔ ظہور الرحمن‘ بشیر الدین‘ علی جان خان اور گلفام شیر کی اِس تحقیقی کوشش سے معلوم ہوا تھا کہ پشاور میں میٹھے (پینے کے قابل) پانی کی قلت بڑھ رہی ہے اور موجود صاف پانی کے وسائل آلودہ کئے جا رہے ہیں۔ اِس جانب بھی توجہ دلائی گئی تھی کہ نکاسیئ آب کی وجہ سے پشاور میں صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ توجہ دلائی گئی کہ پشاور کے پانی اور نکاسیئ آب کا مسئلہ شدت سے سنگینی اور سنگینی سے بحرانی صورت اختیار کر چکا ہے جس کے حل کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے اور نکاسیئ آب کے مختلف مقامات سے گندے پانی کے معیار کی جانچ پڑتال ضروری ہے۔ تحقیق میں نکاسیئ آب میں موجود دھاتوں کے اجزأ کا جائزہ بھی لیا گیا اور اِس سلسلے میں چوبیس گھنٹے کے دوران مختلف اوقات میں شاہی کھٹہ‘ محمد زئی نالہ اور باڑہ گیٹ نالے سے بالترتیب پانی کے نمونے لے کر اُن میں موجود دھاتی مواد کا تجزیہ کیا گیا۔ اس مطالعاتی کوشش سے پتہ چلا کہ شاہی کھٹہ میں انسانی فضلے کی مقدار قومی معیار (نیشنل انوائرمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز) سے کہیں گنا زیادہ ہے۔ کم و بیش اسی طرح کا رجحان دیگر نالوں میں میں بھی پایا گیا۔ اِس تحقیق کی روشنی میں تجویز کیا گیا کہ …… ”گھروں اور چھوٹی بڑی صنعتوں سے خارج ہونے والا پانی بنا تطہیر ’آبپاشی کے لئے استعمال ہونے والی نہروں (چینلز) میں نہ ڈالا جائے‘ پشاور کے زیرزمین پانی کے ذخیرے کو قیمتی و نایاب سمجھتے ہوئے اِس کی حفاظت کی جائے۔ گھریلو یا صنعتی استعمال کے لئے زیرزمین پانی کے ذخیرے سے استفادہ کرنے کی اجازت نہ دی جائے اور اِس سلسلے میں موجود قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ علاؤہ ازیں پانی میں موجود دھاتی و غیر دھاتی آلودگیوں پر نظر رکھنے کے لئے نکاسیئ آب کے نالوں سے نمونے حاصل کر کے اُن کی وقتا ًفوقتاً جانچ و نگرانی کی جائے۔“ امریکی جرنل میں شائع مذکورہ تحقیق سے جان ایلیا کا یہ شعر یاد آ گیا کہ ”نوائیں نکہتیں آسودہ چہرے دل نشیں رشتے …… مگر اِک شخص اِس ماحول میں کیا سوچتا ہو گا‘۔