پشاور کہانی،

پاکستان سپورٹس بورڈ (PSB) نے پشاور کے ’لالہ ایوب سٹیڈیم‘ میں بچھائی گئی ”8 کروڑ روپے“ مالیت کی مصنوعی گھاس (truf) کے خراب معیار سے متعلق شکایات کا جائزہ لینے کے لئے ’5 رکنی‘ تحقیقاتی ٹیم بنائی ہے جس کی سربراہی ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل (فیسلیٹیز) کو سونپی گئی ہے جبکہ اِس تحقیقاتی کمیٹی کے دیگر اراکین میں خیبرپختونخوا ہاکی ایسوسی ایشن کے صدر‘ سنیئر ہاکی کوچ ایم ارشد اور سب انجینئر فیصل اعجاز شامل ہیں۔ کمیٹی ایک ماہ میں سپورٹس بورڈ کو حقائق سے آگاہ کرے گی۔ معاملہ (قضیہ) یہ ہے کہ لالہ ایوب سٹیڈیم میں ایک ماہ قبل مصنوعی گھاس بچھائی گئی لیکن چند ہی ہفتوں میں یہ کناروں کے علاوہ جگہ جگہ سے اکھڑ گئی جبکہ میدان کے درمیانی حصے میں سلوٹیں بھی نمودار ہو گئی ہیں! ایک ٹرف کی اوسط عمر 10 سال ہوتی ہے یعنی وہ کم سے کم دس سال تک کارآمد رہتی ہے لیکن اگر اُسے گردوغبار سے بچایا جائے (صفائی کا مناسب انتظام کیا جائے)۔ اُسے مٹی و ریت سے پاک پانی سے تر رکھا جائے (اِس کی سطح خشک نہ ہونے دی جائے) اور اِس پر صرف مخصوص جوتوں کے ساتھ ہی کھیلا جائے تو یہ ٹرف دس سال سے بھی زیادہ عرصے تک کارآمد رہتی ہے۔ پشاور کے ’لالہ ایوب سٹیڈیم‘ میں پہلی مصنوعی گھاس (ٹرف) 1987ءمیں بچھائی گئی تھی جس کی کہانی بھی یہی تھی کہ اُس کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہوئی اور دس سال مکمل ہونے سے پہلے ہی ٹرف کی حالت ایسی ہو گئی کہ اُس پر کوئی بھی عالمی مقابلہ نہیں کھیلا جا سکتا تھا۔ اِس ٹرف کو تبدیل کرنے کی درخواستوں دی گئیں لیکن شنوائی 2004ءمیں ہوئی اور تب 70 لاکھ روپے کی لاگت سے ٹرف تبدیل کی گئی۔ یہ ٹرف عموماً جرمنی یا کوریا سے درآمد کی جاتی ہے دوہزار چار میں ملک کے 6 ہاکی گراو¿نڈز (پشاور‘ ایبٹ آباد‘ فیصل آباد‘ گوجرہ‘ کراچی اور اسلام آباد) میں بچھائی گئیں تھیں۔ ہاکی کے عالمی مقابلے مصنوعی گھاس (ٹرف) پر کھیلے جاتے ہیں اور یہ کھیل کی تیاری اور عالمی مقابلوں کے لئے لازمی ضرورت بن چکی ہے۔ پشاور میں ہاکی کا آخری عالمی مقابلہ 20 فروری 1999ءکے روز ’پاکستان اور بھارت کی ہاکی ٹیموں کے درمیان ہوا تھا جسے 8 ہزار تماشائیوں نے دیکھا تھا اور اِس میں بھارت نے پاکستان کو ایک کے مقابلے دو گولوں سے شکست دی تھی۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں کل 10 عالمی معیار کے ہاکی سٹیڈیم ہیں جن میں سے صرف تین گوجرہ‘ بہاولپور اور راول پنڈی) مثالی حالت میں ہیں یعنی قابل استعمال ہیں۔ ضرورت صرف یہ نہیں کہ ملک کے قومی کھیل کو خاطرخواہ توجہ دی جائے بلکہ ضرورت یہ بھی ہے کہ کھیل کے میدانوں کو آباد کرنے کے لئے اِن میں تماشائیوں کی گنجائش اور اِن میں فراہم کردہ سہولیات کا معیار بھی بہتر بنایا جائے۔ ایبٹ آباد کے ہاکی سٹیڈیم میں تماشائیوں کی گنجائش تین ہزار‘ کراچی کے ہاکی سٹیڈیم (عبدالستار ایدھی ہاکی سٹیڈیم) میں تیس ہزار‘ روالپنڈی ہاکی سٹیڈیم (آرمی ہاکی سٹیڈیم) میں دس ہزار‘ فیصل آباد ہاکی سٹیڈیم میں پچیس ہزار‘ گوجرہ ہاکی سٹیڈیم میں دس ہزار‘ لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں چودہ ہزار‘ بہاولپور ہاکی سٹیڈیم میں پانچ ہزار‘ لاہور ہاکی سٹیڈیم (نیشنل ہاکی سٹیڈیم) میں پینتالیس ہزار‘ راول پنڈی سٹیڈیم (شہناز شیخ ہاکی سٹیڈیم) میں ایک ہزار جبکہ سیالکوٹ ہاکی سٹیڈیم کی بحالی اور گنجائش میں اضافے کے لئے تعمیراتی کام جاری ہے۔ایک سال قبل (فروری دوہزاربائیس میں) جب ’لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم‘ میں بچھی ہوئی مصنوعی گھاس (آسٹروف ٹرف) اکھاڑی گئی اور نئی ٹرف بچھانے کے لئے تعمیراتی و ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوا تو ’ٹرف‘ کے اردگرد دیوار (ریٹینگ وال) اور فرش کو نئے سرے سے تعمیر نہیں کیا گیا بلکہ جا بجا ٹوٹ پھوٹ کو سیمنٹ سے ڈھانپنے کی کوشش کی گئی لیکن مذکورہ دیوار اور فرش اِس قدر خستہ حال تھے کہ پلستروں کے خشک ہونے سے پہلے ہی دراڑیں نمودار ہو گئیں اور اُس وقت بھی کھیلوں کی خبرنگاری کرنے والے صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے اِس ’بے قاعدگی‘ کی جانب توجہ دلائی لیکن کسی نے نہیں سنی۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ ٹرف بچھانے سے قبل فرش کے کم سے کم 5 مقامات (چار کونوں اور ایک مرکز) میں سوراخ کر کے موجود کنکریٹ کے نمونے لئے جاتے جن کی جانچ کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا کہ نئے فرش کی ضرورت ہے یا نہیں لیکن اِس مرحلے پر بھی صرف 2 مقامات سے فرش کی پختگی جاننے کے لئے نمونے حاصل کئے گئے۔ ذہن نشین رہے کہ مصنوعی گھاس (ٹرف) جس فرش پر بچھائی جاتی ہے اگر وہ فرش خاطرخواہ مضبوط نہ ہواور ٹرف کو چپکانے کے لئے خاطرخواہ مہارت و خاص تناسب سے مطلوبہ مقدار میں کیمیائی مادوں کا استعمال نہ کیا جائے تو ’ٹرف‘ کی قابل استعمال مدت کم ہو جاتی ہے اور اِس پر کھیل معیاری نہیں ہوتا جیسا کہ اسلامیہ یونیورسٹی (کالج) گراو¿نڈ میں لگا ’آسٹروٹرف‘ ہے جو اِسی وجہ سے اونچا نیچا ہے کہ اِسے فرش سے چپکانے پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم کا ایک تو فرش خستہ حال تھا‘ جسے مرمت نہیں کیا گیا اور دوسرا ’ٹرف‘ بچھانے کے عمل میں چپکانے والے کیمیائی مادوں کا استعمال بھی اُس مقدار میں نہیں ہوا‘ جو کم سے کم ضرورت تھی اور یہی وجہ تھی کہ ’ٹرف‘ بچھنے کا کام ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ یہ اُکھڑنے لگا۔ ماضی میں بھی ایسی ہی غلطیوں کی وجہ سے ٹرف اور دیگر متعلقہ سہولیات لمبے عرصے تک قابل استعمال نہ رہیں۔اہم بات یہ بھی ہے کہ پشاور میں نئی ’ٹرف‘ بچھانے کا کام ’اپریل 2022ئ‘ میں مکمل ہو جانا چاہئے تھا لیکن یہ کئی ماہ کی تاخیر کے بعد بھی ایک ایسی حالت میں ’سپورٹس بورڈ‘ کے حوالے کیاگیا ہے کہ اِس کا معیار مثالی نہیں ہے۔ مصنوعی گھاس کو قدرتی گھاس کی طرح زندہ رہنے کے لئے پانی کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اِس کی سطح پر گردوغبار کی تہہ جمنے نہ دینے اور زیادہ یا کم درجہ حرارت میں اِس گھاس کو فرش سے چپکا رہنے کے لئے پانی کے چھڑکاو¿ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے وافر مقدار میں پانی اور چھڑکاو¿ کے لئے میدان کے چاروں اطراف میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر فوارے (سپرنکلرز sprinklers) کی ضرورت ہوتی ہے غیرضروری طور پر طویل ترقیاتی کاموں کی وجہ سے قریب ایک سال اجاڑ (بیکار) رہا۔ یہاں روزانہ 80 سے 100 بچے کھیلنے آتے جو گیارہ ماہ سے پریکٹس نہ کرنے کے بعد دوبارہ کھیل کی مشق کرنے آ رہے ہیں لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ بنیادی سہولت و ضرورت یعنی ’ٹرف‘ معیاری نہیں۔ ایسی صورت میں کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ پشاور سے ہاکی کے کھلاڑی اُبھر کر سامنے آئیں گے؟ توجہ طلب امر ہے کہ لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش بارہ سے چودہ ہزار کرنے‘ ٹرف کے گرد آہنی جنگلے کی تعمیر‘ فائبر چھت‘ نئی ٹرف اور پانی کے نظام کی اصلاح جیسے امور کی انجام دہی میں قومی کھیل سے محبت کی جھلک دکھائی دینی چاہئے تھی لیکن یہ کمی انتہائی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔