یوریشیا حکمت عملی

چین کی کامیاب سفارتکاری اور ثالثی سے جہاں ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں وہیں بیجنگ کی نظریں ایک ایسے اتحاد کے قیام پر ہے جو متحدہ روس (سوویت یونین) سے آزاد ہونے والی سوشلسٹ ری پبلکنز کا اتحاد ہے۔ اِس میں آرمینیا‘ آذربائیجان اور افغانستان بھی شامل ہیں اور یہ ممالک سمندروں تک رسائی نہیں رکھتے۔ اِس نئے بننے والے اتحاد کو ’وسطی یوریشیا‘ کا نام دیا جا رہا ہے جس میں بنیادی طور پر پانچ ممالک شامل ہیں جن میں کچھ بحیرہئ کیسپین (بڑی جھیل) سے جڑے ہوئے ہیں۔ بیجنگ اس خطے کو شاہراہوں اور ریلوے کے نظام سے جوڑنے پر کام کر رہا ہے جو اسے سمندر کے راستے باہر کی دنیا کے لئے کھول دے گا اور یہ اِیران و پاکستان میں گہرے پانی کی بندرگاہوں کو ترقی دے کر کیا جا سکتا ہے۔چین سال 2013 سے گردوپیش میں تجارتی تعاون کو فروغ دے رہا ہے جس کے لئے سلک روڈ اکنامک بیلٹ (ایس آر ای بی) اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبوں کا اعلان کیا گیا۔ اِسی سلسلے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی و تجارتی تعلقات کی بحالی سے بھی یوریشیا حکمت عملی کو اقتصادی جہت ملے گی۔ بنیادی طور پر چین کی کوشش ہے کہ وہ اپنی معیشت کو وسطی ایشیا اور افغانستان کے راستے اُن ممالک تک پھیلا دے جو سمندر تک رسائی نہیں رکھتے لیکن وہ گردوپیش میں وسائل سے مالا مال ممالک سے جڑے ہوئے ہیں اور تجارتی راہداریوں کے ذریعے نہ صرف ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوں گے بلکہ اِس سے چین کی معیشت کو بھی جواباً سہارا ملے گا‘ جسے امریکہ اور یورپ میں مخالفت کا سامنا ہے۔ مؤخر الذکر ممالک کے گروپ کے پاس توانائی اور معدنیات کے بڑے ذخائر موجود ہیں جن سے چین فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور یہ چین کی پھلتی پھولتی اور بڑھتی صنعتی معیشت کے لئے خام مال اور ایندھن کی فراہمی کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ اطلاعات ہے کہ چین نے پہلے ہی کابل (افغان دارالحکومت) کے جنوب میں واقع مختلف علاقوں میں معدنی ذخائر سے معدنیات نکالنا شروع کر دی ہیں۔ قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف ورلڈ اکنامکس اینڈ پالیٹکس کے ایسٹ اوردابائیف نے سال دوہزارسولہ میں ایک تحقیق کی تھی جس میں وسطی یوریشیا میں زمینی راہداریوں کے کردار  کاتذکرہ کیا گیا تھا اور اِس کے امکانات پر بحث کرتے ہوئے متعدد نتائج
 اخذ کئے تھے۔ یہ کوشش ’آستانہ کلب‘ کی جانب سے اٹھائے گئے موضوعات میں سے ایک تھا جس کی بنیاد قازقستان کے اُس وقت کے صدر نے رکھی تھی اور اُنہوں نے ہی اس تحقیق کی مالی اعانت بھی کی تھی۔ آستانہ کلب کے پہلے اجلاس میں‘ وسطی یوریشیا کے مستقبل پر بحث کی گئی۔ اِس پہلو سے بھی صورتحال کا جائزہ لیا گیا تھا کہ آخر شاہراؤں اور ریلوے نیٹ ورک کی تعمیر جیسے اِمکانات پر بھی تجارت کیوں منحصر ہے جس سے خطے کے ممالک بیرونی دنیا سے تجارت کر سکیں گے۔ آستانہ کلب میں شامل جاپان کے ماہرین اِس رائے سے اختلاف رکھتے تھے اور وہ حیران بھی تھے کہ کس طرح سمندر کے ذریعے تجارت کی جگہ زمینی راہداریوں سے تجارت سودمند اُور انقلابی ثابت ہو سکتی ہے۔ شاید جاپان کی یہ رائے اِس وجہ سے تھی کیونکہ وہ جزیروں کے مجموعے پر مشتمل ہے اور اُس کی تجارت کا کلی انحصار سمندر پر ہی ہے۔ یہی سوچ برطانیہ میں بھی پائی جاتی ہے جس نے سمندر نہ صرف تجارت بلکہ دنیا پر حکومت کرنے کے لئے بھی استعمال کیا اور دور دراز ممالک پر قبضہ کر کے اپنی کالونیاں قائم کیں۔ جاپانیوں نے بھی سمندر کو انہی دو مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ وہ ایک بڑی تجارتی طاقت بننے میں کامیاب رہے لیکن دنیا کے اُن حصوں کو نوآبادیاتی بنانے میں ناکام رہے جہاں اس نے اپنی فوجیں بھیجی تھیں۔ اُنہیں امریکہ اور چین کی افواج نے اپنے توسیع پسندانہ مقاصد (فتوحات) حاصل کرنے سے روکے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں تجارت کے لئے دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ سمندر کے ذریعے تجارت کو زیادہ محفوظ اور کم خرچ بناتے ہوئے اِس پر انحصار برقرار رکھا جائے جبکہ دوسری سوچ یہ پائی جاتی ہے کہ زمینی راہداریوں کے ذریعے تجارت کو فروغ دیا جائے اُور اِس دوسری قسم کی سوچ کی قیادت چین کر رہا ہے۔آستانہ میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف ورلڈ اکنامکس اینڈ پالیٹکس کی جانب
 سے شائع ہونے والے ”ٹرانسپورٹ کوریڈورز آف ساؤتھ ایشیا اور قفقاز“ کے عنوان سے شائع ہونے والے مطالعے میں مصنف ایسٹ اوردابیف نے لکھا کہ ”زمینی نقل و حمل اور ٹرانزٹ کوریڈور کی تاثیر کا اندازہ لگانے کے لئے سب سے پہلے اس کے معاشی فوائد اور اس سمندری متبادل راستے کے مقابلے مسابقت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ علاقائی اور عالمی تمام کلیدی کھلاڑیوں کے مفادات کے ساتھ ساتھ ٹرانزٹ ملک کی صورتحال پر بھی غور کرنا ضروری ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ایسے حالات سے گریز کرنا چاہئے‘ جن میں راہداری کی تعمیر کا مطلب فریقین کا انتخاب کرنا ہو اور بالآخر اِن ممالک کے اختیارات اِس حد تک کم ہوں کہ خارجہ امور سے متعلق فیصلہ سازی کی گنجائش کم ہو جائے۔“بیجنگ کو چند خدشات بھی لاحق ہیں جن کا ذکر نہ بھی کیا جائے تب بھی اُن کی موجودگی اور شدت کے باعث تناؤ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ واشنگٹن اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک اپنے طور پر بھی کام کر رہے ہیں یا مل کر کام کر رہے ہیں کہ وہ چین کی تجارتی حکمرانی قائم نہ ہونے دیں۔ چین بلوچستان کے ساحل کو چین کے مشرق میں تیانجن اور شنگھائی بندرگاہوں سے جوڑنے کا خواہاں ہے اور اگر ایسا ہو جاتا ہے یعنی چین کامیاب ہو جاتا ہے تو توانائی سے مالا مال عرب دنیا اور ایران سے جاپان تک تیل اور گیس کی نقل و حمل کی لاگت میں نصف کمی آئے گی اور اگر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو دیکھا جائے تو پاکستان میں چین کی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبوں کا مقصد یہی ہے۔ امریکہ ’سی پیک‘ اور ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو‘ کے آگے ہار مانتا دکھائی دے رہا ہے۔ رواں ہفتے واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار ’ڈیوڈ اگناٹیئس‘ جن کا شمار اُن امریکی مبصرین میں ہوتا ہے جو مشرق وسطیٰ کے امور پر نظر رکھتے ہیں اُنہوں نے لکھا ہے کہ امریکہ کی مشرق وسطی سے متعلق حکمت عملی میں تبدیلی آ رہی ہے تاہم امریکہ کی نظر میں صدر شی جن پنگ ’نئے ٹرمپ‘ ہیں تاہم اُنہوں نے سعودی عرب اور اِیران کے درمیان فاصلہ بڑھانے کی بجائے فاصلے کم کئے ہیں اور مستقبل میں سعودی عرب اور اِیران کے باہمی تعاون سے فائدہ چین کو بھی ہوگا جبکہ امریکہ کے لئے مشرق وسطیٰ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ وسطی ایشیائی اور مشرق وسطیٰ کے خطے میں ہونے والے قومی فیصلوں پر اپنی گرفت برقرار رکھے جو وقت کے ساتھ ڈھیلی ہو رہی ہے۔