لاہور ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کا 55سالہ ریکارڈ طلب کرلیا 

لاہور:لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس محمد رضا قریشی پر مشتمل دورکنی بینچ نے وفاقی حکومت کی جانب سے 1990 سے 2001 کی توشہ خانہ کی تفصیلات اور تحائف دینے والے ممالک کا ریکارڈ پبلک کرنے کے سنگل بنچ کے خلاف اپیل پر سماعت کرتے ہوئے حکومت سے 1947 سے 2001کا تک کا توشہ خانہ کا مکمل ریکارڈ طلب کر لیا۔

 عدالت نے فریقین کو 17 اپریل کے لئے نوٹس بھی جاری کر تے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے۔جبکہ جسٹس شاہد بلال حسن نے کہا ہے کہ ہم فریقین کو مکمل سن کر فیصلہ کریں گے۔جسٹس شاہد بلال حسن کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کی اپیل پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس شاہد بلال حسن نے وفاقی حکومت کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے وزارت پارلیمان اور وزارت داخلہ کو فریق نہیں بنایا۔اس پر وفاقی حکومت کے وکیل مرزا نصر کا کہنا تھا کہ میں میمو میں یہ فریق ایڈ کر دوں گا۔

سنگل بنچ نے تحائف دینے والے ممالک کا ریکارڈ پبلک کرنے کا کہا ہے۔حکومت نے توشہ خانہ کے تحائف کا ریکارڈ پبلک کر دیا۔اگر تحائف دینے والے سورس کا بتاتے ہیں تو خارجی تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ ہے جبکہ جسٹس رضا محمد قریشی نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی حکومت کی اپیل سے کیا ایسے نہیں لگتا کہ جو ہے وہ بھی لٹانے آ گئے ہیں، اب تو معاملہ اس سے آگے جانا ہے۔اس موقع پر وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت نے سب کچھ ویب سائٹ پر ڈال دیا ہے صرف تحائف کے سورسز کی حد تک ریلیف مانگا ہے۔

اس پر جسٹس رضا محمد قریشی کا کہنا تھا کہ کیا تحائف لینے والے ڈیکلیئر بھی کر رہے تھے کہ نہیں۔ جسٹس شاہد بلال حسن کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں کوئی گفٹ دے تو ہم بھی تحائف ڈیکلیئرکرنے کے پابند ہیں۔اس پر وفاقی حکومت کے وکیل مرزاانصر کا کہنا تھا کہ ریاست کی نمائندگی کرنے والوں پر تحائف ڈیکلیئر کرنا لازم ہے۔1990 سے 2001 تک کا ریکارڈ چھپانے کی کوشش نہیں کر رہے۔ اس پر جسٹس شاہد بلال حسن کا کہنا تھا کہ 1990 سے پہلے کا ریکارڈ کدھر ہے۔

اس پر وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ 1990 سے پہلے کا ریکارڈ ہمارے پاس نہیں۔ جسٹس شاہد بلال حسن کا کہنا تھا کہ ریکارڈ آپ کے پاس ہونا چاہیے آپ حکومت ہیں۔اس پر وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایک خاص خطے کے لوگ بہت مہنگے گفٹ دیتے ہیں۔جب مہنگے گفٹ ملتے ہیں تو باتیں ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس پر جسٹس رضامحمدقریشی نے سوال کیا کہ ایک خاص خطے کے لوگ خاص لوگوں کو خاص گفٹ کیوں دیتے ہیں۔ اس پر وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہم صرف خارجہ پالیسی کی وجہ سے کہہ رہے ہیں یہ سورسز پبلک نہ کئے جائیں۔

درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ حکومت پھنس رہی تھی اس لئے توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کیا گیا۔جسٹس شاہد بلال حسن کا کہنا تھا کہ ابھی تو بڑے بڑے پھنسیں گے۔ اظہر صدیق نے ایک ملک کا نام لینے پر وفاقی حکومت کے وکیل پر اعتراض کیا۔ اس پر وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے جب نام سامنے آتا ہے تو باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔جسٹس شاہد بلال حسن کا کہنا تھا کہ ہم فریقین کو مکمل سن کر فیصلہ کریں گے۔