ایک انار‘ ہزار بیمار

ورلڈ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر ’ایک ہزار‘ افراد کی طبی دیکھ بھال کے لئے صرف ”ایک ڈاکٹر“ موجود ہے جبکہ ملک کے دور دراز  بالخصوص دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی یہ تعداد مزید کم ہے جہاں تک امراض کے ’ماہر معالجین کا تعلق ہے تو یہ تناسب اِس سے بھی زیادہ بدتر ہے شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے نوزائیدہ بچوں کی شرح اَموات جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے پاکستان میں صحت عامہ کی دیکھ بھال کا بحران ایسا ہے کہ آج بھی پاکستان ہمسایہ ملک افغانستان کی طرح دنیا کے اُن 2 ممالک میں سے ایک ہے جہاں ’پولیو کا مرض‘ موجود ہے ذہن نشین رہے کہ پولیو سے متاثر ہونے والے بچے تمام عمر کے لئے مفلوج (اپاہج) ہو کر معذوری کی زندگی بسر کرتے ہیں‘ یہاں انسداد ِپولیو کی مہمات یوں تو سارا سال جاری و ساری رہنے کے بیانات آتے رہتے ہیں لیکن خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو رہی‘ صحت عامہ سے متعلق مسائل سوچ بچار کے متقاضی ہیں۔ عام آدمی کے نکتہئ نظر سے یہ صورتحال قطعی منطقی نہیں کہ عوام کو طبی سہولیات کی فراہمی اور علاج معالجے میں سہولیات پر ہر سال اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود صورتحال جوں کی توں ہے‘ لوگوں کی فلاح و بہبود پر زیادہ سنجیدگی اور دور اندیشی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے‘ ایسا لگ رہا ہے جیسے صحت عامہ کی دیکھ بھال سے جڑی مشکلات میں قوم خود ساختہ بحران میں پھنس گئی ہے جبکہ ضرورتاس امر کی ہے کہ صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے کو عالمی معیارکے مطابق بنانے کے لئے درکار وقت‘ پیسہ اور کوشش کے ذریعے سرمایہ کاری کی جائے‘ مزید علاج گاہیں اور تدریسی مواقع (میڈیکل و ڈینٹل کالجوں) کے قیام پر محدود توجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے‘ صحت کی دیکھ بھال سے متعلق انتظامات و سہولیات ’بے ترتیب‘ ہیں جنہیں مرتب کرنے کے لئے دیگر سماجی بحرانوں بالخصوص تعلیم کی کمی سمیت معاشرتی سطح پر تبدیلیاں لانے کے لئے لائحہ عمل وضع کرنا ہوگا۔ فی الوقت صحت عامہ سے متعلق فیصلہ سازی میں معالجین‘ سرکاری ملازمین اور ادویہ سازوں کے مفادات کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے اور مریضوں کو صارفین سمجھا جاتا ہے‘ ذاتی منفعت پر مبنی یہ سوچ کسی بھی مرض یا وباء سے زیادہ خطرناک ہے۔ ذہن نشین رہے کہ بہت سے مطالعات سے معلوم ہوا ہے کہ خواتین میں تعلیم کی شرح بڑھنے سے بچوں کی تربیت میں فائدہ ہوتا ہے اور اِسی سے بچوں کی صحت بھی جڑی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یونیسکو‘ کی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جن ماؤں نے کم از کم ثانوی درجے تک تعلیم حاصل کی ہوتی ہے اُن کے بچوں کی صحت نہ صرف اچھی ہوتی ہے بلکہ پانچ سال تک کی عمر میں ایسی خواندہ ماؤں کے بچے ناخواندہ ماؤں کے تناسب یعنی زیادہ تعداد میں زندہ رہتے ہیں‘ خواندہ ماؤں کی اکثریت بچوں کی صحت کی دیکھ بھال اور غذائیت کے بارے میں بہتر فیصلے کرتی ہے جبکہ یہ صحت کی دیکھ بھال کرنے کی بھی زیادہ اہل ہوتی ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ 1990ء کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کے تحت شروع کیا گیا ’لیڈی ہیلتھ ورکرز‘ کا نظام بہت بڑی کامیابی رہی اور وقت ہے کہ اِس طرز کے دیگر پروگرام بھی شروع کئے جائیں‘ پاکستان کا بنیادی مسئلہ ’غربت‘ ہے اور اِسی کا عکس صحت عامہ میں کوتاہی اور دیکھ بھال کی کمی کی صورت بھی ظاہر ہو رہا ہے۔ افراط زر (مہنگائی) کی بڑھتی ہوئی شرح نے زندگی بچانے والی ادویات اور علاج تک رسائی کو پہلے سے کہیں زیادہ غیر یقینی بنا رکھا ہے۔ صحت کی دیکھ بھال کی لاگت ملک کی اکثریت کے لئے ناقابل برداشت حدوں کو چھو رہی ہے‘ آبادی کا بڑا طبقہ ’صحت تک رسائی‘ سے محروم ہے لیکن اب درآمدی پابندیوں کی وجہ سے‘ ادویات کی قیمتیں مزید بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے متوسط طبقے کے لئے اپنی صحت کی ضروریات پوراکرنا ممکن نہیں رہا۔ صحت ترجیح ہوتی ہے کیونکہ زندگی سے زیادہ بیش قیمت کوئی دوسری شے نہیں۔ مہنگی ادویات خریدنے کے بعد دیگر بنیادی ضروریات کے لئے مالی سکت نہ رکھنے والوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے جنہیں ’پیپلز فارمیسی‘ جیسے ماضی کے اقدام سے ریلیف دیا جا سکتا ہے۔یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں کہ اگر موجودہ معاشی بحران حل نہ کیا گیا تو اصلاح احوال ناممکن ہوگی۔ اس کے علاؤہ پاکستان کو صحت عامہ کا ایسا ’متناسب و مناسب نظام‘ وضع کرنا ہے جو اکثریت کی مالی سکت (قوت خرید و برداشت) کو مدنظر رکھتے ہوئے علاج معالجے کی قیمتیں مقرر کریں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ ماہر معالجین (اسپیشلسٹ) نے نجی کلینکس پر فیسیں ایک ہزار سے بڑھا کر تین ہزار تک کر دی ہیں‘ معاشرے سے رحم کا اِس طرح اُٹھنا اپنی جگہ المیہ اور صحت کے بحران جیسا خطرناک ہے۔ معاشی ترقی کا فروغ وقت کی ضرورت ہے جبکہ محصولات سے ہونے والی قومی آمدنی کی کمی سے بھی نمٹنا ہے اور جب صحت عامہ کی دیکھ بھال کی بات آتی ہے‘ تو حکومتی سطح پر اصلاحات نہیں بلکہ روایتی اقدامات سے کام چلایا جاتا ہے اور یہ طرزعمل کسی بھی طرح قابل تعریف و توصیف نہیں ہے‘ جس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔