پاکستان کی پہلی ’ڈیجیٹل خانہ اور مردم شماری‘ کا عمل جاری ہے جسے ’10 اپریل‘ کے روز‘ حسب ترتیب (timeline) مکمل ہو جانا چاہئے تھا لیکن فیصلہ سازوں نے اِسے جاری رکھتے ہوئے 5 دن کی توسیع کر دی ہے تاکہ وہ خاص عمل مکمل کیا جا سکے جس کا تعلق پاکستان کے انسداد غربت اور فلاح و بہبود کی حکومتی حکمت عملیوں سے بھی ہے۔ ’مردم شماری‘ کے نتائج آنے کا انتظار اُس طبقے کو بھی ہے جو عام انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے تحت دیکھنا چاہتا ہے جبکہ ایک سیاسی سوچ یہ پائی جاتی ہے کہ سال 2018ء کے انتخابات جن رائے دہندگان کی فہرستوں (ووٹرز لسٹوں) کے مطابق ہوئے تھے‘ اُنہی سے استفادہ کرتے ہوئے پنجاب و خیبرپختونخوا میں انتخابات کا انعقاد کروایا جائے۔ انتخابات نئی حلقہ بندیوں اور نئی انتخابی فہرستوں کے مطابق ہوں یا نہ ہوں لیکن مردم شماری کی اہمیت و ضرورت بہرصورت رہے گی کیونکہ جب تک قومی فیصلہ سازوں کے سامنے حقیقی اعدادوشمار نہیں ہوں گے‘ اُن سے درست فیصلے اور بالخصوص مستقبل کے لئے جامع منصوبہ بندی کی اُمید بھی نہیں کی جانی چاہئے۔ اِسی مرحلہئ فکر پر ’مردم شماری‘ کا یہ پہلو بھی ذہن نشین رہے کہ ڈیجیٹل خانہ و مردم شماری کے ساتھ اگر طرز حکمرانی اور طرز انتخابات بھی ڈیجیٹل اختیار کر لیا جائے تو پاکستان کے بہت سارے مسائل حل تو نہیں ہوں گے لیکن اُن کے حل کی کوششیں کم خرچ ضرور ہو جائیں گی۔ فیصلہ ساز‘ سیاسی جماعتیں اور قوم اگر ’ڈیجیٹل خانہ و مردم شماری‘ پر متفق ہو گئی ہے تو وقت ہے کہ ہر شعبہ زندگی اور بالخصوص سرکاری کام کاج ”ڈیجٹیل خطوط“ پر استوار کئے جائیں‘ جس کی ترقی یافتہ شکل ’مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس)‘ ہے اور خوش آئند ہے کہ پنجاب کی ایک عدالت نے ایک پیچیدہ کیس میں کسی نتیجے تک پہنچنے کے لئے ’مصنوعی ذہانت‘ کا استعمال کیا ہے!مردم شماری جب کبھی بھی ہو اِس کی سب سے بڑی ’سٹیک ہولڈر‘ سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں جو اپنے اپنے جماعتی مفاد کی عینک سے اِس عمل کو دیکھتی ہیں جبکہ عوام کی اکثریت نکتہئ نظر ’مردم شماری‘ کی اہمیت اور اِس عمل سے جڑی باریکیوں اور بحثوں سے الگ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ مہنگائی کے باعث جہاں ایک عام آدمی کو اپنے روزگار‘ معاشی تحفظ اور اپنے کنبے کی کفالت جیسے تفکرات لاحق ہوں وہاں ’خانہ و مردم شماری‘ کے بارے وہ نہ تو زیادہ سوچتا ہے اور نہ ہی جاننا چاہتا ہے۔ دوسری طرف ذرائع ابلاغ کی توجہ بھی گرما گرم سیاسی ماحول پر ٹکی ہوئی ہے تو ایسی صورت میں ’خانہ و مردم شماری‘ نظرانداز موضوع بنا ہوا ہے حالانکہ اِس کی اہمیت دیگر قومی موضوعات کی طرح کلیدی ہے۔ مردم شماری بروقت مکمل کرنے کی کوشش اپنی جگہ لیکن اِس عمل کی جامعیت متاثر نہیں ہونی چاہئے اور یہی وجہ (ضرورت) تھی کہ ادارہ شماریات،پاکستان بیورو آف سٹیٹسکس کی جانب سے گنتی کا عمل مکمل کرنے اور نتائج کے اعلان سے پہلے چند تجاویز دی گئی ہیں جیسا کہ چالیس ہزار عمارتوں میں ہوئی گنتی دوبارہ کی جائے۔ ذہن نشین رہے کہ ’10 اپریل‘ کے مقررہ دن تک 4 کروڑ (چالیس ملین) خاندانوں کے ڈیجیٹل کوائف جمع کئے جا چکے ہیں لیکن ماضی میں اِسی قسم کی ایک کوشش پر ملک کے بڑے شہروں کی جانب سے شماریاتی غلطیوں اور نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے اعتراضات کئے گئے جن میں سرفہرست کراچی تھا۔ کراچی کی آبادی 2017ء کی مردم شماری میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ (سولہ ملین) ریکارڈ ہوئی جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر تھا لیکن کہا گیا کہ کراچی کی آبادی کا ایک بڑا حصہ شمار ہی نہیں ہوا اور کراچی کی سیاست میں فعال جماعتوں اور رہنماؤں نے ’ایک سے بڑھ کر ایک‘ اعتراضات اُٹھائے اور یوں اِس پورے اعتراضی عمل میں جو ایک نکتہ بطور مشترک مطالبہ سامنے آیا وہ یہ تھا کہ کراچی کی ”ستر سے اَسی لاکھ (سات سے آٹھ ملین)“ آبادی شمار ہی نہیں کی گئی! ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑا عدد ہے اور اِتنی بڑی غلطی کا احتمال نہیں اُمید کی جانی چاہئے کہ اِس مرتبہ ’ڈیجیٹل مردم شماری‘ کے نتائج بڑے شہروں کے لئے بھی یکساں قابل قبول ہوں گے وگرنہ پاکستان میں آ کر ’ڈیجیٹل ٹیکنالوجی‘ بھی بدنام ہو جائے گی!
ادارہئ شماریات نے ملک گیر سطح پر جن 40 ہزار عمارتوں کو دوبارہ گنتی کے لئے منتخب کیا ہے اُن میں سے 30 ہزار عمارتیں کراچی سے ہیں اور اندیشہ ہے کہ اِن عمارتوں کی خانہ شماری تو ہوئی لیکن اِن میں رہنے والوں کی تعداد کی درست گنتی نہیں کی گئی۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جن بڑے شہروں میں 15 اپریل تک مردم شماری کے عمل کو توسیع دی گئی ہے اُس میں خیبرپختونخوا کا ایک بھی شہر شامل نہیں ہے! آخر ایسا کیوں ہے؟