پہلا مرحلہئ فکر: ٹیکنالوجی کی دنیا پر ’حکمرانی‘ کا تعلق اہلیت سے نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام سے ہے اور شاید یہی وہ وقت کا حکمران ہے جس نے معیشت سے دفاع اور دفاع سے اظہار رائے تک ’عالمی اجارہ داری‘ قائم کر رکھی ہے۔ دنیا کی سات بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں 5 کا تعلق امریکہ سے ہے۔ امریکی ایپل (apple) 380 ارب ڈالر سالانہ آمدنی کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ دیگر کمپنیوں میں امریکہ کی ایلفابیٹ (Alphabet) 260 ارب ڈالر سالانہ‘ جنوبی کوریا کی سام سنگ (Samsung) 245 ارب ڈالر سالانہ‘ تائیوان کی ہان ہائی پریسیشن (Hon Hai Precision) 215 ارب ڈالر سالانہ‘ امریکہ کی مائیکرو سافٹ 185 ارب ڈالر سالانہ‘ امریکہ ہی کے میٹا پلیٹ فارم (فیس بک) 120 ارب ڈالر سالانہ اور امریکی ڈیل (Dell) 110 ارب ڈالر سالانہ آمدنی رکھتی ہے۔ جب معلوم ہے کہ دنیا پر ٹیکنالوجی کی حکمرانی ہے تو اِس شعبے میں عصری اور مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے خاطرخواہ تعلیم و تحقیق میں سرمایہ کاری نہ کرنا ’مجرمانہ غفلت‘ ہے اور بہتری اِسی میں ہے کہ جلد از جلد غفلت کو ترک کر کے حقائق کا ادراک کیا جائے کیونکہ یہی ٹیکنالوجی معاشی بہتری و آزادی کے علاوہ قومی سلامتی و دفاع کے لئے بھی ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔دوسرا مرحلہئ فکر: امریکہ کی معروف کاروباری شخصیت ایلون مسک (Elon Musk) ہر سیکنڈ ’پانچ سو ڈالر‘ یعنی ہر منٹ ’تیس ہزار ڈالر‘ یعنی ’بیس لاکھ ڈالر‘ فی گھنٹہ‘ یعنی ’چار کروڑ ڈالر‘ یومیہ یعنی ’تیس کروڑ ڈالر‘ ہر ہفتے یعنی ’ایک ارب ڈالر‘ ہر مہینے یعنی سالانہ ’پندرہ ارب ڈالر‘ آمدنی رکھتے ہیں۔ ایک ایسے ’کھرب پتی‘ شخص جس کی آمدنی میں ہر سال اربوں ڈالرز کا اِضافہ ہو رہا ہے‘ جب اُس نے سال 2022ء کے دوران سماجی رابطہ کاری کی معروف ویب سائٹ ’ٹوئیٹر (twitter)‘ بمعہ ادارے 44 ارب ڈالر کے عوض خریدی تو اُمید یہ تھی کہ اِس اقدام سے ’ٹوئٹر میں مزید سرمایہ کاری کی جائے گی۔ ٹوئٹرنئی خدمات متعارف کروائے گا اور بالخصوص یہ کہ اِس کی مفت فراہم کی جانے والی سہولیات کو زیادہ وسیع اور معیاری بنایا جائے گا لیکن ٹوئٹر کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (CEO) بننے کے بعد ’51 سالہ‘ ایلون مسک نے نہ صرف ٹوئٹر کمپنی کے اخراجات کم کرنے کے لئے ملازمین کی بڑی تعداد کو فارغ کیا بلکہ ایک اور نہایت ہی متنازع فیصلہ کرتے ہوئے ٹوئیٹر کی خصوصی تصدیقی خدمت (بلیو چیک مارک Blue Checkmark) جو پہلے مفت فراہم کی جاتی تھی اُس کی قیمت ’8 امریکی ڈالر‘ مہینہ مقرر کر دی اور کہا کہ ”ٹوئٹر خریدنے کے وقت یہ اِدارہ ’3 ارب ڈالر سالانہ خسارہ‘ کر رہا تھا جسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور منافع بخش بنانے کے لئے ملازمین کا بوجھ کم کیا گیا ہے جبکہ ’مصدقہ خدمات‘ کی قیمت (آٹھ ڈالر ماہانہ) مقرر کی گئیں ہیں اور اُمید ہے کہ ٹوئیٹر صارفین تعاون کریں گے۔“ ذہن نشین رہے کہ ایلون مسک کے اثاثوں کی کل مالیت 200 ارب ڈالر سے زیادہ ہے! رواں ہفتے جب ٹوئٹر کی جانب سے باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ تصدیق شدہ ٹوئٹر اُن کھاتوں (اکاؤنٹس) سے ’بلیو چیک مارک‘ کو ہٹا دیا جائے گا جو ماضی میں مفت فراہم کئے گئے تھے اور اِس سلسلے میں ’20 اپریل 2023ء‘ کی آخری تاریخ (ڈیڈ لائن) مقرر کر دی گئی ہے جس کے بعد صرف وہی ٹوئٹراکاؤنٹ تصدیق شدہ ہونے کا اعزاز رکھیں گے جو اِس کی مقررہ قیمت اَدا کرنے کی مالی سکت رکھیں گے۔ اندازہ ہے کہ ’2 لاکھ 94 ہزار‘ ٹوئٹرصارفین کے اکاؤنٹس ’تصدیق شدہ‘ ہیں اور اِن میں سے اگر نصف بھی آٹھ ڈالر ماہانہ کے عوض اپنے اکاؤنٹ کی دوبارہ تصدیق خریدتے ہیں تو اِس سے ٹوئیٹر کو ماہانہ 7 لاکھ 76 ہزار ڈالر ماہانہ ہو گی جبکہ کمپنی کو اِس اقدام سے کم سے کم ’10 لاکھ (ایک ملین) ڈالر ماہانہ‘ آمدنی متوقع ہے۔ سال دوہزاربائیس کے اختتام پر ٹوئیٹر کے پوری دنیا میں فعال صارفین کی تعداد 45 کروڑ (450ملین) سے زیادہ تھی جن میں پاکستان کے 30 لاکھ (تین ملین) سے زیادہ صارفین بھی شامل ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ’8 امریکی ڈالر‘ پاکستانی کرنسی (PKR) میں 2300 روپے ہوتے ہیں۔تیسرا مرحلہئ فکر: ٹوئیٹر کی جانب سے صارفین کے کھاتوں (اکاؤنٹس) کی قیمت مقرر کرنے کا ”نقصان“ یہ ہوا ہے کہ 8 امریکی ڈالر ادا کر کے اب کوئی بھی شخص تصدیق شدہ ٹوئیٹر اکاؤنٹ حاصل کر سکتا ہے جو اِس سے قبل صرف معروف کاروباری‘ سیاسی‘ فلمی شخصیات یا پیشہ وروں جیسا کہ صحافیوں کو ایک مرحلہ وار تصدیقی عمل کی تکمیل کے بعد جاری کیا جاتا تھا تاکہ اُن کے نام سے ملتا جلتا اکاؤنٹ بنا کر کوئی غلط معلومات نہ پھیلائے یا معروف شخصیات سے منسوب فرضی (جعلی) پیغامات نہ پھیلائے جائیں۔ سوشل میڈیا پر معلومات کی تصدیق کا یہ طریقہ متعارف کرانے کے بعد ’ٹوئٹر‘ کی پیروی کئی دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے بھی کی لیکن جب سے ’آٹھ ڈالر کے عوض تصدیق شدہ اکاؤنٹ فروخت کیا جا رہا ہے‘ تو ٹوئٹر کی آمدنی میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن سوشل میڈیا کا ایک انتہائی معتبر ذریعہ اپنی وقعت و انفرادیت کھو گیا ہے۔ تصور کریں کہ کئی سربراہان مملکت کے علاؤہ قومی سلامتی اور خارجہ امور کے اہم ادارے ٹوئٹرہی کے ذریعے اپنا مؤقف بیان کرنے کے عادی ہو چکے ہیں اور اگر پاکستان کو دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ٹوئیٹر کے سب سے مقبول رہنما ہیں جنہیں 1 کروڑ 90 لاکھ (19 ملین) سے زیادہ ٹوئیٹر صارفین ’فالو‘ کر رہے ہیں۔ نواز شریف کے ٹوئٹر فالوورز کی تعداد دس لاکھ (ایک ملین)‘ بلاول بھٹو زرداری پچاس لاکھ (پانچ ملین) اور شہباز شریف کے 66 لاکھ (چھ اعشاریہ چھ ملین) فالوورز ہیں۔ اِسی طرح پاکستان کے اہم قومی ادارے جیسا کہ دفتر خارجہ کے چار لاکھ اکسٹھ ہزار سے زیادہ‘ الیکشن کمیشن کے ستانوے ہزار سے زیادہ‘ نادرا (تین لاکھ سے زیادہ)‘ سٹیٹ بینک آف پاکستان چار لاکھ پینسٹھ ہزار سے زیادہ فالوورز ہیں۔چوتھا مرحلہئ فکر: ٹوئیٹر کی تصدیق شدہ اور غیر تصدیق شدہ اکاؤنٹس کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی کے بعد کیا قومی اداروں کو ’ٹوئٹر استعمال کرنا چاہئے اور اگر پاکستان کی سیاسی شخصیات اور اداروں کے بیانات اور سرگرمیوں سے فوری آگاہ ہونے کے لئے (مجموعی طور پر) 2 کروڑ سے زیادہ ٹوئیٹر کا استعمال کر رہے ہیں تو وقت ہے کہ ایک الگ ’سوشل میڈیا پلیٹ فارم‘ کا آغاز ہونا چاہئے اور مسلم ممالک کے لئے یہی وہ مناسب وقت ہے کہ وہ ’ٹوئٹر کی طرز پر سماجی رابطہ کاری کا آغاز کریں جیسا کہ کامسیٹس کی صورت ایک مشترکہ سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کا ادارہ بنایا گیا تھا یہ الگ بات ہے کہ اُس ادارے کا قیام پاکستان میں کیا گیا لیکن اِس نے اُمت مسلمہ کے لئے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق جیسی ضرورت کو پورا نہیں کیا ہے ورنہ آج مسلم دنیا کسی ٹوئٹر فیس بک‘ یوٹیوب یا گوگل جیسے اداروں کی محتاج نہ ہوتی!