یوکرین کی جنگ میں براہ راست نیٹو فوجیوں کی روس کے خلاف کاروائیوں میں ملوث ہونے سے یہ تنازعہ مزید الجھن کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور اب ایک طرح سے روس اور نیٹو بالکل آمنے سامنے آگئے ہیں۔امریکہ کی انتہائی خفیہ فوجی معلومات کے لیک ہونے کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ امریکہ نے روس کو یوکرین میں پھنسانے کیلئے کس طرح جال بچھایا، دوسری طرف خفیہ معلومات لیک ہونے کے معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔ ایک نئی رپورٹ میں یہ سامنے آیا ہے کہ معلومات لیک کرنے والے نے اشارہ دیا تھا کہ وہ فوجی اڈے پر کام کرتا ہے۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بدھ کو رپورٹ کیا ہے کہ 'ڈسکورڈ' پر ایک گروپ کے رکن نے بتایا ہے کہ ایک اور گروپ ممبر نے یہ اشارہ دیا تھا کہ خفیہ دستاویزات کو شیئر کرنے کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے اور وہ فوجی اڈے پرکام کرتا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق لیک ہونے والی خفیہ دستاویزات میں یوکرین کی فوج اور دیگر حساس معاملات سے متعلق معلومات ہیں۔پینٹاگان کے ترجمان ان لیکس کو "قومی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ" قرار دے چکے ہیں۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اس نے ڈسکورڈ گروپ کے ایک رکن کا انٹرویو لیا تھا جس سے حاصل ہونے والی تفصیلات کی تصدیق گروپ کے ایک اور رکن نے کی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ گروپ ممبر کے مطابق دستاویزات لیک کرنے والا امریکی حکومت سے دشمنی نہیں رکھتا تھا۔ لیکن اس نے امریکی قانون نافذ کرنے والے ادروں اور انٹیلی جنس کمیونٹی کے بارے میں بات کی تھی کہ وہ شہریوں کو دبانے اور ان سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔گروپ ممبر کا کہنا تھا کہ معلومات لیک کرنے والے نے ابتدائی طور پر ٹائپ رائٹ انٹیلی جنس رپورٹس شیئر کیں لیکن بعد میں اس نے دستاویزات کی تصاویر شیئر کیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ دستاویز لیک کرنے والے نے رواں برس مارچ کے وسط میں تصاویر شیئر کرنا روک دی تھیں جس کے کچھ ہفتوں بعد ایک اور ڈسکورڈ گروپ صارف نے دوسرے ڈسکورڈ سرور پر درجنوں دستاویزات پوسٹ کیں اور یوں ان معلومات کا پھیلا ؤوسیع ہوگیا۔ڈسکورڈ چیٹ کے ایک رکن کے مطابق مختلف موضوعات پر بات چیت کے لیے بنائے گئے ایک فورم میں شامل افراد یوکرین میں جنگ پر بحث کیا کرتے تھے۔واضح رہے کہ لیک ہونے والی خفیہ دستاویزات میں یوکرینی فوج کی پوزیشن کے نقشوں سے متعلق بریفنگ سلائیڈز سے لے کر یوکرین کے لیے عالمی حمایت کے جائزوں اور دیگر حساس موضوعات شامل ہیں۔البتہ امریکی حکام نیانفرادی طور پر ان دستاویزات کی تصدیق نہیں کی ہے۔اس بارے میں کوئی واضح جواب نہیں ہے کہ کتنی دستاویزات عام ہوئی ہیں۔مگر خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' نے تقریبا 50 دستاویزات دیکھی ہیں جب کہ کچھ اندازوں کے مطابق دستاویزات کی مجموعی تعداد سینکڑوں میں ہے۔امریکہ نے روس کو یوکرین میں پھنسا کر افغانستان میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ اب تک کامیاب بھی ہے کہ روس کو ایک ایسی جنگ میں پھنسا لیا ہے کہ جس سے چھٹکارا پانا آسان نہیں۔ تاہم امریکہ کی یہ مہم جوئی پوری دنیا کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ روس کیلئے یوکرین کی جنگ کو جیتنا موت اور زندگی کا مسئلہ ہے اور پہلے ہی روس کے صدر پیوٹن کہہ چکے ہیں کہ اگر روس کے وجود کو خطرہ لاحق ہو تو جوہری ہتھیاروں کا استعمال ضرور کیا جائیگا۔یعنی اس وقت انڈیا کو جوہری جنگ کے خطرات کا براہ راست سامنا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ ہی وہ ملک ہے جس سے پہلے بھی جوہری ہتھیار کا استعمال کیا ہے اور اب بھی اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی وجہ امریکی پالیسیاں ہیں جس میں روس کے بغل میں موجود یوکرین کو نیٹو رکن بنانے کی ترغیب دی اور یوں روس کو اشتعال دلا کر یوکرین پر حملہ کرنے اور ایک ناختم ہونے والی جنگ میں ملوث ہونے پر مجبور کیا یہ الگ بات ہے کہ روس نے اس جنگ میں اب تک سیاسی اور سٹریٹجک کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی معیشت کو بھی جنگ سے کمزور نہیں ہونے دیا ہے جو روس کی بڑی کامیابی ہے۔