واقعی سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا نہ ہی اس کے سینے میں کسی قسم کاکوئی احساس ہوتاہے وگرنہ آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی سیاست نے جب سے کاروبار کاروپ دھاراہے تب سے سیاست برائے خدمت کادور لد چکااور سیاست برائے دولت کا دور شروع ہوچکاہے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس وقت سب سے منافع بخش کاروبار بن چکاہے اسی لئے تو موروثیت کادوردورہ ہے باپ کے بعد بیٹااوربیٹے کے بعدپوتا سامنے آرہاہے بے حس سیاست کی وجہ سے پاکستانی قوم آج تباہی کی صورتحال سے دوچار ہوچکی ہے سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی لڑائی لڑنی ہے ان کو غریب قوم کاکوئی خیال ہے نہ ہی احساس‘ ظاہرہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ سرمایہ داروں پر مشتمل ہے اورسرمایہ دار کو بھوک کی تکلیف کااحساس آخرکیسے ہوسکتاہے اسی لئے تو یہ مطالبات سامنے آتے جارہے ہیں کہ پاکستان کے مزدوروں کو حقوق کے حصول کیلئے طبقاتی طور پر اسمبلیوں سینٹ لوکل باڈیز میں اپنا حق نمائندگی لینے اور زندگی کے ہر موڑ پر استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی خود اپنے اندر سے اپنی کلاس کے لوگوں کو نمائندہ بنانا ہوگا روایتی اسمبلی ممبران جاگیرداروں سرمایہ داروں کے چنگل میں پھنسنے‘اعتماد کرنے‘اپنے آپ کو دھوکہ دینے کی بجائے خود میدان میں نکلنا ہوگا مزدورکسان رہنما ایک عرصے سے اس امر پر زور دیتے رہے ہیں کہ اپنے حقوق کے لئے محنت کشوں کسانوں کو جدوجہد کرنا ہوگی کسی سیاسی لیڈر کسی سیاسی پارٹی کے دھوکہ میں آکر ان کے روایتی لیڈروں کو ووٹ دینے کے بجائے اپنے اندر مزدور قیادت بنانا ہوگی اگرچہ نامساعد حالات ہیں اس وقت پاکستان میں الیکشن سے قبل الیکشن ریفارمز کی ضرورت ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ مزدوروں کے حق میں ریفارمز کرکے ایسا ماحول مرتب کرے کہ آئندہ الیکشن میں مزدور کسان حصہ بطور امیدوار لے سکیں‘ ابھی تک ملکی قوانین میں اسکی گنجائش نہیں ہے مزدوروں کو اپنے حق میں ریفارمز لانے کیلئے بھی جدوجہد کرنا ہوگی کیونکہ حکومت اور سیاسی پارٹیاں ریفارمز میں بھی مزدروں‘ کسانوں کیلئے ریفارمز لانے کیلئے تیار نہیں ہیں اسی طرح کسان رہنماؤں، زرعی ماہرین، سول سوسائٹی کے نمائندوں کایہ بھی کہناہے کہ بے زمین کسانوں میں زمین تقسیم کی جائے اور ہاری عدالتیں قائم کی جائیں کیونکہ کسانوں کی تنظیم سازی نہ ہونے کے باعث وہ منتشر ہیں‘ 1950ء میں ٹیننسی ایکٹ کا نفاذ ہوا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا جس کی وجہ سے اس قانون کا کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ا س ضمن میں پاکستان کسان مزدور تحریک کے رہنما اس وقت چاروں صوبوں میں سرگرم ہیں اور پریس کانفرنسوں کے ذریعہ اپنے مسائل اور مشکلات پالیسی سازوں تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں‘پاکستان کسان مزدور تحریک کے عہدیداروں نے جو انکشاف کیاہے وہ بھی انتہائی افسوسناک بلکہ تشویشنا ک ہے کہ سرکاری ذرائع سے حاصل کردہ اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ آزادی کے وقت صرف سات فیصد زمینداروں کے پاس 53 فیصد زرعی زمین تھی۔ جبکہ گزشتہ برسوں کے اعداد و شمار کے مطابق صرف پانچ فیصد خاندانوں کے پاس 64 فیصد زرعی زمین ہے جبکہ 80 فیصد چھوٹے کسانوں کے پاس پانچ ایکڑ سے بھی کم زمین ہے۔ زمین کی ملکیت میں عورتوں کا حصہ دو فیصد سے بھی کم ہے بلا شبہ یہ سرکاری اعداد و شمار ملک کے ایک بہت چھوٹے اشرافیہ جاگیردارانہ ڈھانچے کے ہاتھوں میں دولت کے شدید ارتکاز کی نشاندہی کرتے ہیں۔ تحریک کے قائدین کے مطابق عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) جیسے سامراجی اداروں نے ملکی پالیسی سازی کے ساتھ ساتھ زرعی منصوبوں پر عمل درآمد کرانے میں بھی شدید مداخلت کی ہے جس نے ہماری زرعی زمین کے ساتھ ساتھ منڈیوں کو بھی قبضے میں کرلیا ہے، مختصر یہ کہ پورے نظام خوراک و زراعت کو کارپوریٹ قبضہ کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ انہوں نے بجا طوپر موسمیاتی تبدیلی کو موسمیاتی سامراجیت قراردیتے ہوئے کہاہے کہ یہ زراعت کے لئے انتہائی تباہ کن ہے اور بے زمین کاشتکاروں، ٹھیکے پر کام کرنے والے کسانوں، ہاریوں، مزارعوں اور زرعی مزدوروں کے لئے دگنا تباہ کن رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں لگاتار سیلاب، موسلادھار بارشوں اور اب اس مہینے میں ہونے والی ژالہ باری کی وجہ سے تیار فصلیں تباہ ہوئی ہیں اور یہ تباہ کاریاں بار بار اپنا اثر دکھا رہی ہیں۔ ان موسمیاتی بحرانوں کے نتیجے میں بے زمین کسانوں کا نہ صرف معاشی نقصان ہوا ہے، بلکہ ان کے مویشیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ اتنی بڑی تباہی کے باوجود آئی ایم ایف قرض حاصل کرنے لئے انتہائی سخت عوام دشمن شرائط عائد کر رہا ہے جس کے نتیجے میں شدید غربت اور بھوک میں اضافہ ہوا ہے۔ ا ن کا بھی کہناہے کہ گزشتہ چند برسوں سے کسانوں کے لئے ایک تشویش ناک صورتحال شعبہ مال مویشی اور ڈیری سیکٹر (دودھ اور دودھ سے حاصل کردہ دیگر مصنوعات) میں حکومت کی حمایت یافتہ کارپوریٹ منصوبے ہیں۔ ملک کے دیسی بیجوں کو تباہ کرنے کے بعد اب روایتی انمول مویشیوں کو پسماندہ قرار دینے اور انہیں بے دخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے، ایک ایسی حیثیت اور اعزاز جو یقیناً بے زمین کاشتکاروں کی کمر توڑ محنت پر مبنی ہے،ا س لئے حکومت کو چاہئے تھاکہ اس محنت کا صلہ ان کسانوں میں زمین کی منصفانہ اور مساویانہ بنیادوں پر تقسیم کر کے دیا جائے انہوں نے کہا کہ ہم اپنے دیہی اثاثوں کے بچاؤ اور ان پر کارپوریٹ کنٹرول کی مخالفت اور سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے لئے مضبوط اور متحد ہونگے زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم، خوراک کی خودمختاری اور موسمی انصاف کے لئے ہماری جدوجہد جاری رہے گی انہوں نے مطالبہ کیا کہ بے زمین کسانوں، خاص طور پر عورت کسان کے لئے زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کی جائے، موسمیاتی بحران پر قابو پانے کے لئے پائیدار طریقہ پیداوار کو اپنایا جائے،کس قدر ستم ظریفی کاامر ہے کہ ایک زرعی ملک کاکسان اپنے بچاؤ کے لئے مدد کی اپیلیں کررہاہے حالانکہ حکومت کو ازخود ہی ایسی کسان دوست پالیسیا ں تشکیل دینی چاہئے تھیں کہ جن سے نہ صرف زمینوں کے چندہاتھوں میں ارتکاز کاخوفناک عمل رک جاتا بلکہ کسانوں کو ان کی محنت کاپھل بھی صحیح طریقے سے مل پاتا آج بھی سیاسی جماعتوں پر بڑے جاگیرداروں کاقبضہ ہے اوریہ جاگیر دار کسی بھی صورت کسانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے تیارنہیں کیونکہ پھر ان کی اور ان کی آل اولاد کی خدمت اور چاکر ی کون کرے گا بڑی جاگیروں کاخاتمہ کئے بغیر ملک میں حقیقی فلاحی ریاست کاخواب کسی بھی صورت شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا اور جاگیرداری کی خاتمہ کے لئے سیاست کے سینے میں دل کاہونا ضروری ہے جو بدقسمتی سے نہیں ہے۔