سوشل میڈیا: جستجو تیری ’درد ِسر‘ ٹھہری

سماجی رابطہ کاری (سوشل میڈیا) صارفین جن غیرمحتاط روئیوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں اُس کی وجہ سے عصر حاضر کا ایک انتہائی اہم اسلوب اپنی  ساکھ کھو رہا ہے؛سوشل  میڈیا کے ذریعے عمومی رجحان یہی پایا جاتا ہے کہ اِس پر موجود معلومات غیرمصدقہ‘ فرضی‘ جعلی اور کسی خاص سیاسی مقصد کے لئے دانستہ طور پر تخلیق کردہ ہوتی ہیں اور اِن کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا مغربی معاشروں میں ’سوشل میڈیا‘ کے ذریعے کاروباری اور تعلیمی سرگرمیاں فروغ پا رہی ہیں جبکہ پاکستان میں اِن کے ذریعے ’جعل سازی اور ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالا جا رہا ہے اور اِن دونوں محرکات کی اصلاح ہونی چاہئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا صارفین کو یہ نکتہ سمجھنا چاہئے کہ جب وہ کسی حمایت اور مخالفت میں ملے جلے پیغامات من و عن پھیلا رہے ہوتے ہیں تو اِس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ اِس کی تصدیق سے بری الذمہ ہو گئے بلکہ ہر سوشل میڈیا پوسٹ کو پسند یا ناپسند کرنے اُور اُسے مزید پھیلانے میں شراکت داری کے لئے وہ بھی یکساں ذمہ دار  ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے سائبر قوانین کے تحت فرضی نام سے اکاؤنٹ بنانا‘ کسی بھی حکومتی محکمے  پر تنقید‘ اُن کی قیادت کے حوالے سے ’غیرمحتاط‘ اظہار ِخیال ’جرم‘ بھی ہو سکتا ہے‘ایسے صارفین کے خلاف ’سائبر کرائمز‘ کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہو سکتے ہیں جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ رواں ہفتے کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کا ویڈیو پیغام جاری ہوا‘ جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے سے کھڑا ہو کر کہہ رہا تھا کہ اُس نے سوشل میڈیا پر جن پیغامات کو پھیلایا اور جس قسم کے خیالات کا اظہار کیا‘ وہ اُن پر معافی مانگتا ہے اور آئندہ ایسا نہیں کرے گا۔ اِس قسم کی معافی تلافی کو عرف عام میں ’سافٹ وئیر اپ ڈیٹ‘ کہا جاتا ہے لیکن لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر حرکتوں کی وجہ سے جن صارفین کو ’جیل کی ہوا کھانا پڑ رہی ہے‘ وہ نہیں جانتے کہ اُن کے والدین اور عزیزوں کو کتنی ذہنی اذیت و جسمانی مشقت سے گزرنا پڑا ہے‘ اُن کی رہائی پر کس قدر اخراجات ادا کرنا پڑے ہیں لہٰذا احتیاط ہی میں سمجھ داری ہے‘ والدین کو بھی چاہئے کہ اُنہوں نے اپنے بچوں کو اگر موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت دی ہے تو اِس کے ساتھ سماجی و ثقافتی ادب و آداب‘ حفظ مراتب اور اُن قانونی تقاضوں کے بارے میں بھی ہدایات دیں‘ جن کی خلاف ورزی سے وہ مشکل میں پڑ سکتے ہیں‘ ظاہر ہے کہ کوئی بھی شخص نہیں چاہے گا کہ اُس کا جوان بیٹا دانستگی یا نادانستگی میں ’جیل کی سیر‘ کرے‘ جس کے اپنے منفی نفسیاتی اثرات بھی ہیں۔سوشل میڈیا صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر ”درد ِسر“ بنا ہوا ہے بقول افسانہ نگار و شاعرہ رومانہ رومی ”جستجو تیری درد ِسر ٹھہری …… لے کے مجھ کو یہ در بدر ٹھہری“ سوشل میڈیا کیا ہے یہ تو سب جانتے ہیں لیکن سوشل میڈیا کو تفریح طبع کا ذریعہ بنا کر اِس کی مقصدیت کا قبلہ جس طرح تبدیل ہوا ہے وہ پیشرفت لائق توجہ اور خرابیوں کا مجموعہ بن چکی ہے؛ رواں ہفتے عالمی شہرت یافتہ ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ”ٹک ٹاک“ نے سال 2022ء کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ  ”گزشتہ برس کی آخری سہ ماہی کے دوران ہدایات (کمیونٹی گائیڈ لائنز) کی خلاف ورزی کرنے پر پاکستان سے ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد ویڈیوز ہٹائی گئی ہیں“ جبکہ پاکستان سے صرف ’ٹک ٹاک‘ کی ’کیمونٹی گائیڈ لائنز‘ ہی کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی بلکہ غیراخلاقی اور غیرقانونی پیغامات پر مبنی ویڈیوز بھی ’اَپ لوڈ‘ ہو رہی ہیں اور چونکہ اُن کی زبان (اُردو) چینی کمپنی (ٹک ٹاک) کی ناقابل فہم ہے اور وہ سیاسی و سماجی پس منظر سے بھی آگاہ نہیں ہوتی اِس لئے زیادہ تر ایسی ویڈیوز کو ہٹایا نہیں گیا‘ وہ اب بھی نمائش کے لئے موجود ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر گندگی پھیلانے والوں کو ’ٹک ٹاک‘ کے اِس سقم کا بخوبی علم ہے اور وہ اِس سے ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہیں‘ لمحہئ فکریہ ہے کہ ٹک ٹاک ’کیمونٹی گائیڈ لائنز‘ کی خلاف ورزی کرنے والا پاکستان دنیا کا دوسرا ملک ہے جبکہ پہلے نمبر پر امریکہ ہے جس کے سوشل میڈیا صارفین کی تین ماہ کے دوران اپ لوڈ کی گئیں اگر پاکستان سے ’ٹک ٹاک‘ جیسے ایک سوشل میڈیا ذریعے پر سالانہ پانچ سے چھ کروڑ ایسی ویڈیوز ’اپ لوڈ‘ ہو رہی ہیں جنہیں نہیں ہونا چاہئے اور اِس سے بھی زیادہ ’ٹک ٹاک‘ نظر سے بچ گئی ہیں تو پاکستان کے ٹک ٹاک صارفین میں بڑی تعداد ایسے افراد کی شامل ہے جنہیں نفسیاتی و اخلاقی طور پر اصلاح و تربیت کی ضرورت ہے لیکن یہ کام تعلیمی اداروں سے لیکر معاشرے کی لامحدود وسعتوں اور گھر کی چاردیواری میں نہیں ہو رہا۔ٹک ٹاک کی ایک تفصیلی کمیونٹی گائیڈ لائنز انفورسمنٹ رپورٹ میں ’پلیٹ فارم‘ سے ہٹائے گئے توہین آمیز مواد اور اکاؤنٹس کے حجم اور نوعیت کے بارے تفصیلات جاری کی گئی ہیں جن کے مطابق سال دوہزاربائیس کی چوتھی سہ ماہی میں عالمی سطح پر ہذف کی جانے والی ویڈیوز کی مجموعی تعداد پچاسی کروڑ 680 لاکھ 819 ہزار رہی‘ ٹک ٹاک‘ کے فرضی ناموں کے بنائے گئے 5 کروڑ 44 لاکھ سے زیادہ کھاتوں (اکاؤنٹس) کے خلاف بھی کاروائی کی گئی ہے یادرہے ’ٹک ٹاک‘ کی واضح ہدایات ہیں کہ اِس کے کھاتہ دار ’بالغ‘ ہونے چاہئیں اِس پوری کاروائی سے متعلق چند حقائق چشم کشا ہیں جیسا کہ ’ٹک ٹاک‘ انتظامیہ نے پایا کہ غیرقانونی سرگرمیوں سے متعلق 27فیصد سے زیادہ ویڈیوز شیئر کی گئیں۔ پاکستان سے متعلق ٹک ٹاک کے اعدادوشمار سے متعلق حکومتی یا سماجی ردعمل سامنے نہیں آیا‘ نہ ہی ذرائع ابلاغ نے اِس خبر کو خاطرخواہ اہمیت دی۔