پشاور کہانی: فراموشی کا موسم 

خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کو ’تمباکو نوشی سے پاک شہر‘ قرار دیدیا گیا ہے۔ اِس ’منفرد اعزاز‘ کا پس منظر ضلعی انتظامیہ کی ’عوامی مقامات‘ پر تمباکو نوشی کی ممانعت پر عمل درآمد اور تمباکو نوشی نہ کرنے کی ترغیبات دلانے کے لئے عوام میں آگاہی و شعور پیدا کرنے میں محنت کا صلہ بتایا گیا ہے اور  بتایا گیا ہے کہ ’پشاور میں جہاں تمباکو نوشی پبلک مقامات پر ختم ہوئی ہے وہیں تمباکو نوشی بالعموم بھی کم ہوئی ہے اور یہ ایک صحت مند پیشرفت ہے۔ اندازہ ہے کہ دنیا میں ہر سال 80 لاکھ لوگ صرف تمباکو نوشی کی وجہ سے لاحق ہونے والے امراض کی وجہ سے مر جاتے ہیں اور صحت عامہ سے متعلق عالمی ماہرین کی رائے یہ بھی ہے کہ اگر دنیا میں تمباکو نوشی پر قابو نہ پایا گیا تو سال 2030ء تک ہر چھٹی موت کا سبب تمباکو نوشی ہوگی۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ تمباکو نوشی سے زیادہ یعنی 80فیصد اموات غریب و متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی ہو رہی ہیں اور یہی طبقات سرمایہ دار و مالی طور پر خوشحال طبقات کی نسبت زیادہ تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق تمباکو نوشی کا تعلق غربت میں اضافے سے بھی ہے اُور جب کسی خاندان کا سربراہ تمباکو نوشی کی وجہ سے بیمار ہوتا ہے تو اُس کی زیرکفالت پورا کنبہ معاشی مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی اور اِس عادت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے سگریٹ کی ہر ڈبیہ پر یہ تنبیہ بمعہ تصویر (پیغام) واضح طور شائع کیا جاتا ہے کہ ”تمباکو نوشی صحت کے لئے مضر ہے۔ وزارت صحت۔“ جبکہ دوسرا اقدام سگریٹ پر عائد ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہے۔ ایک عام برانڈ کی 20 سگریٹس والی ڈبیہ پر 17 روپے 60 پیسے سے لیکر اچھے برانڈ کی 20 سگریٹس کے پیک پر 46 روپے 50 پیسے ٹیکس عائد ہے اور ٹیکسوں کی یہ شرح 3 درجات میں یعنی مختلف شرحوں سے عائد کی گئی لیکن جب ہم پورے پاکستان کی بات کرتے ہیں تو مذکورہ دونوں اقدامات سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ حتیٰ کہ ڈیڑھ ماہ قبل (چودہ فروری دوہزار تیئس) کے روز وفاقی حکومت نے سگریٹ پر عائد ٹیکسوں (فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی) کی شرح میں اضافہ کرنے کا اعلامیہ  (SRO) جاری کیا تھا جس کے تحت سگریٹ کی قیمتوں میں 250 فیصد جیسا غیرمعمولی اضافہ کیا گیا لیکن اِس اقدام کے باوجود بھی اِس ’نشہ آور جنس‘ کی طلب بدستور موجود ہے البتہ ڈھائی سو فیصد قیمتوں میں اضافے کے بعد قومی سطح پر سگریٹ کی فروخت میں کچھ کمی ضرور آئی ہے اور شاید یہ بھی ایک محرک ہے جس کی وجہ سے پشاور کے پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی اور سگریٹ کی بالعموم فروخت کم ہوئی ہے۔سگریٹ نوشی کی صورت صحت عامہ کو لاحق ظاہری خطرے کے  ساتھ پشاور کو دوسرا یکساں طور پر ”بڑا اور درپردہ خطرہ“ پلاسٹک (پولی تھین) سے بنے تھیلے تھیلیوں (شاپنگ بیگز)‘ ڈبوں اور پلاسٹک ہی سے بنے ہوئے برتن ہیں جن کی وجہ سے انسانی جسم میں خون کے ساتھ پلاسٹک کے انتہائی باریک ذرات (Microplastic) گردش کرتے ہیں اور جب پلاسٹک ہمارے خون کے ساتھ رگوں میں دوڑنا شروع کرتی ہے تو اِس ’مائیکرو پلاسٹکس‘ ذرات ہمارے جسم میں ’ہارمونز‘ کی طرح برتاؤ کرتے ہیں اور ضروری یعنی ریگولیٹنگ ہارمونز کے کام کاج کو متاثر کرتے ہیں یعنی وہ ہارمونز جن کی ہمارے جسم کے مدافعاتی نظام سمیت فعال رہنے کے لئے ضرورت پڑتی ہے وہ پلاسٹک کے باریک ذرات کی وجہ سے الجھن کا شکار ہوتے ہیں اور یوں وہ جسم کے لئے مفید اثرات کو روک لیتے ہیں۔ اِسی سلسلے میں ہالینڈ میں کی گئی ایک تحقیق لائق توجہ ہے جس میں ڈاکٹر ڈک ویتھاک (Prof. Dr. Dick Vethaak) نے خون کے تجزئیات جمع کئے اور اُن کی جانچ سے معلوم ہوا کہ ہر 100میں 25 افراد کے خون میں پلاسٹک کے باریک ذرات موجود ہیں۔ ’پولیمیر‘ کہلانے والے اِن ذرات کی انسانی خون میں شامل ہونے کی 2 بنیادی وجوہات بطور ضمنی نتیجہ پیش کی گئیں کہ کھانے پینے کی اشیا بالخصوص گرما گرم اشیا کو جب پلاسٹک میں لپیٹا جاتا ہے تو اُس سے پلاسٹک کے باریک ذرات خوراک میں شامل ہو کر انسانی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ مذکورہ تحقیق جو کم و بیش سبھی عالمی اشاعتی و نشریاتی اداروں میں شائع ہو چکی ہے اور سوشل میڈیا پر مفت دستیاب ہے کی روشنی میں جب ہم گردوپیش اور گھر کے اندر و باہر اپنے معمولات کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تندور سے گرما گرم روٹی‘ دودھ‘ دہی‘ ٹھنڈے گرم مشروبات‘ دالیں‘ پکوڑے‘ سموسے‘ امرسے‘ حلوہ پوری‘ لوبیہ یا سرکہ ڈالنے کی وجہ سے تیزابی خصوصیات رکھنے والی خوراک جیسا کہ کچالو پیڑا وغیرہ پلاسٹک ہی کی تھیلیوں میں ڈال کر دیا جاتا ہے ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی پلاسٹک کے برتن‘ بوتلیں اور شاپنگ بیگز سے استفادہ جان لیوا امراض کا باعث بن رہا ہے اُمید ہے کہ جس طرح ’تمباکو نوشی‘ کے خلاف جہاد یعنی اِس کی حوصلہ شکنی اور خریدوفروخت کے حوالے سے قواعد پر سختی سے عمل درآمد ممکن بنایا گیا ہے بالکل اِسی طرح پلاسٹک (پولی تھین) سے بنے ہوئے ہر قسم کے شاپنگ بیگز کا استعمال بھی بتدریج کم کرنے کے لئے جاری کوششوں کو حتمی نتیجے (کامیاب انجام) تک پہنچایا جائے گا عموماً شاپنگ بیگز کو ’قابل تحلیل‘ اور ’ناقابل تحلیل‘ اقسام کے طور پر جانا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ کالے رنگ کے شاپنگ بیگز جو ناقابل تحلیل ہوتے ہیں اور اُن کی وجہ سے نکاسیئ آب کے نالے نالیوں کی بندش کے علاؤہ آب و ہوا (ماحول) کا معیار بھی خراب (متاثر) ہوتا ہے اور یہ شہر کی عمومی خوبصورتی پر بھی دھبہ ہیں تو اِن سے بھی نجات ملنی چاہئے لیکن توجہ طلب ہے کہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگ یا پلاسٹک سے بنے ہوئے برتن یا پلاسٹک میں لپٹی ڈبہ بند اشیائے خوردونوش چاہے اُن کے پیکنگ پر ”قابل تحلیل (ڈی گریڈ ایبل)“ جیسے الفاظ لکھے بھی ہوں لیکن یہ انسانی صحت کے لئے مضر ہیں اور قابل تحلیل یا ناقابل تحلیل دونوں صورتوں میں پلاسٹک شاپنگ بیگز سے نجات ضروری ہے۔ یادش بخیر کہ اگست 2019ء تک اخبارات میں شائع اِس قسم کی خبریں نظر سے گزرتی تھیں کہ ضلعی انتظامیہ (ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن) نے فلاں جگہ کاروائی میں 100 کلو یا 200 کلو پلاسٹک کے شاپنگ بیگز قبضے میں لئے ہیں لیکن وقت کے ساتھ یہ مہمات ترجیح نہیں رہیں جبکہ پلاسٹک کا کم سے کم استعمال صاف و سرسبز پشاور کے بھی ضروری ہے کیونکہ پشاور میں پیدا ہونے والے تمام کچرے (کوڑا کرکٹ) میں نصف سے زیادہ پلاسٹک ہوتی ہے۔