پاکستان کوجنوبی ایشیاء کے نئے منظرنامے پر نگاہ رکھتے ہوئے ایران سے سستی پیٹرولیم مصنوعات‘ گیس‘ بجلی اور زرعی اجناس درآمد کرنے پر توجہ دینا ہوگی جس سے ملک میں مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی اور غذائی عدم تحفظ کی صورتحال میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔سمجھنا ہوگا کہ ایران کی معیشت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور یہ ایک ایسی لچک دار معیشت ہے جس کے قواعد و ضوابط ہر ملک اپنی مرضی سے طے کر سکتا ہے لیکن اگر مذاکرات میں قومی مفاد کو مدنظر رکھا جائے،ایران کا زیادہ تر انحصار ہائیڈرو کاربن‘ پٹرولیم‘ زراعت اور خدمات کے شعبوں پر ہے۔ ایران مشرق وسطیٰ کی معیشت کا اہم رکن ہے جس کی مارکیٹ کا حجم قریب نو کروڑ افراد ہیں اور اِس کی برائے نام قومی خام پیداوار (جی ڈی پی) صرف 43 کروڑ ڈالر ہے۔ ایران نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ امریکہ ڈالر سے معیشت کو رہائی دلا کر بھی ترقی کی جا سکتی ہے اور اِس سلسلے میں ایران کی خلائی ترقی کا پروگرام اور زرعی پیداوار سے لیکر تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا اعتراف اور چرچا پاکستان کے علاوہ دنیا کے ہر ملک میں ملتا ہے۔ قدرتی گیس کے ذخائر کے لحاظ سے ایران دنیا میں دوسرا اور خام تیل کے ذخائر کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے۔ایران وہ پہلا ملک ہے جس نے 1947ء پاکستان کو ایک خودمختار ملک کے طور پر تسلیم کیا تھا اور اس کے بعد سے ایران پاکستان تعلقات منفرد اور اچھے رہے کیونکہ بہت سارے عالمی مسائل کے بارے میں ایران اور پاکستان کی رائے میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ علاقائی طور پر ایران بین الاقوامی تنظیموں میں قائدانہ کردار ادا کرتا ہے اور پاکستان کی طرح او آئی سی‘ ڈی ایٹ‘ ای سی او‘ جی ایٹ اور جی ٹوئنٹی فور تنظیموں کا فعال رکن ہے۔ توجہ طلب ہے کہ ٹیکسٹائل اور کپڑوں‘ چمڑے‘ جوتے‘ پھلوں اور سبزی و چاول پر زیادہ کسٹم ڈیوٹی کی وجہ سے پاکستان ایران برآمدات کا حجم کم ہے! پاکستان اور ایران کے درمیان رسمی تجارت کے مقابلے غیررسمی تجارت‘ جس میں غیرقانونی تجارت بھی شامل ہے کا حجم زیادہ ہے ماضی میں پاکستان نے ایک آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا جس پر نہایت ہی سست روی سے پیشرفت ہو رہی ہے۔ ایران پہلے ہی پاکستان کے ساتھ اپنی تجارتی پالیسی ”نرم“ کئے ہوئے ہے تاہم پاکستان اُنہی خطوط پر ”نرمی و رعایت“ چاہتا ہے جو ایران دوسرے ممالک کو دے رہا ہے اور اگر ایران کی قیادت پاکستان کی منڈی اور پاکستان کی ضرورت کا خاطرخواہ ادراک کرتے تو پاک ایران بارٹر سسٹم پر تجارت میں اضافے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔پاکستان ایران اور ایران پاکستان تجارت ’ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے‘ کا ذکر کئے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ ایران پر اقتصادی پابندیوں اور دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان سیاسی رکاوٹوں کی وجہ سے رکا ہوا تھا۔ ایران پہلے ہی پاکستان کی سرحد تک پائپ لائن بچھا کر اپنے وعدے کی تکمیل کر چکا ہے۔ فی الوقت ایران پاکستان پائپ لائن منصوبے کو ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)‘ منصوبے سے منسلک کیا جاسکتا ہے جس سے ایرانی گیس پاکستان کے راستے چین تک پہنچانے میں بھی سہولت ملے گی اور اِس پاکستان تجارت و توانائی کی راہداری بن کر ’علاقائی معاشی مرکز‘ بن جائے گاپاکستان کی گوادر اور ایران کی چاہ بہار بندرگاہیں ایک دوسرے سے زیادہ دور نہیں۔ پاکستان کی خواہش ہے کہ گوادر اور چاہ بہار کی بندرگاہیں حریف نہ ہوں بلکہ ایک دوسرے منسلک بندرگاہیں (سسٹر پورٹس) کے طور پر اُبھر کر سامنے آئیں۔ دونوں بندرگاہوں کو ریل‘ سڑک اور شپنگ لنکس کے ذریعے خطے میں تجارت کے فروغ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اگر گوادر و چاہ بہار کے درمیان تجارتی تعاون قائم ہوا تو اِس سے بھارت جو کہ ایران سے تجارت کے بہانے‘ ایرانی سرزمین اور وسائل پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے کی حوصلہ شکنی بھی ہو گی جبکہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ گوادر و چاہ بہار سے ایران کو بھی یکساں معاشی فوائد نئے امکانات اور روزگار کے نئے مواقعوں کی صورت میسر آئیں گے۔