صنفی مساوات: آئینی و انسانی حقوق

صنفی مساوات بنیادی انسانی حق ہے جو عدل و انصاف اور منصفانہ معاشرے کی ترقی کے لئے اہم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تمام افراد‘ چاہے وہ کسی بھی جنس کے ہوں‘ یکساں وسائل‘ مواقع اور فیصلہ سازی تک مساوی رسائی دی جائے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہر ایک کو کسی بھی امتیاز یا ظلم و ستم کا سامنا کئے بغیر اپنی صنفی شناخت کا اظہار کرنے کا حق حاصل ہے اگرچہ صنفی مساوات اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں شامل ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ابھی تک اس کا مکمل ادراک نہیں ہوا۔ صنفی مساوات معاشرے میں مرد و عورت کے مختلف کرداروں کی مساوی قدر ہے جو آئین کے درج ذیل آرٹیکلز کے ذریعہ ضمانت شدہ قومی ترقی کے لئے ضروری ہے آئین کی پچیسویں شق شہریوں کی مساوات سے متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ (الف) تمام شہری قانون کی نظر میں مساوی ہیں اور قانون کے مساوی تحفظ کے حق دار ہیں اور دوئم جنس کی بنیاد پر کسی سے تفریق نہیں کی جائے گی اور تیسرا یہ کہ کوئی بھی چیز یا اقدام ریاست کو خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لئے خصوصی اہتمام سے نہیں روک سکتا۔ اِسی طرح آئین تعلیم کا حق بھی دیتا ہے اور ریاست پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو اس طرح مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی جس کا تعین قانون کرتا ہے۔ آئین کی چھبیسویں شق عوامی مقامات تک رسائی کے حق کا تحفظ کرتا ہے اور اِس سلسلے میں عدم امتیاز سے روکتا ہے۔مذکورہ شق کی پہلی اور دوسری ضمنی شق میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی چیز یا اقدام ریاست کو خواتین اور بچوں کے لئے خصوصی اہتمام سے نہیں روک سکتا۔ آئین کی 27ویں شق خدمات میں امتیازی سلوک کے خلاف عوام کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ پہلی شق میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی خدمت میں تقرری کے اہل کسی بھی شہری کے ساتھ صرف رنگ‘ نسل‘ مذہب‘ ذات پات‘ جنس‘ رہائش یا جائے پیدائش کی بنیاد پر ایسی کسی تقرری کے سلسلے میں امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ آئین قومی معمولات زندگی میں خواتین کی بھرپور شرکت کی ضمانت دیتا ہے اور قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی بھرپور شرکت کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات پر زور دیتا ہے۔ اگر آئین کو سمجھ لیا جائے اور آئین پر اِس کی روح کے مطابق عمل ہو تو پاکستان کے بہت سے مسائل اور تنازعات حل ہو سکتے ہیں جیسا کہ آئین کی پچیسویں شق کسی خاندان کی حفاظت وغیرہ سے متعلق ہے اور اِس میں شادی‘ خاندان‘ ماں اور بچے سے متعلق حقوق کا ذکر ہے۔ اِسی طرح 38ویں شق لوگوں کی سماجی اور معاشی فلاح و بہبود سے متعلق ہے۔ اِسی طرح آئین کے تحت ملک کے دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام شہریوں کو مناسب آرام اور تفریح کے مواقع فراہم کرنا‘ کام کاج کا بندوبست‘ مناسب ذریعہ معاش کی سہولیات فراہم کرنا بھی ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔ خدمات سرانجام دینے والے تمام افراد یا دیگر طریقوں سے لازمی سوشل انشورنس یا سماجی تحفظ کی فراہمی بھی ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔ تمام شہریوں کے لئے خوراک‘ لباس‘ رہائش‘ تعلیم اور طبی امداد جیسی بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنا بھی ریاست کا فرض ہے۔ دیکھا جائے توصنفی مساوات صرف انسانی حقوق کا معاملہ نہیں بلکہ یہ معاشی خوشحالی کے لئے بھی ضروری ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ صنفی مساوات معاشی ترقی‘ اعلی سطح کی پیداواری صلاحیت اور بہتر کام کے حالات کا باعث بن سکتی ہے نیز صنفی عدم مساوات کے نتیجے میں معاشی جمود اور غربت بڑھنا بھی خارج از امکان نہیں ہے۔ اِسی طرح اگر صنفی مساوات سماجی انصاف کے لئے بھی ضروری ہوگا۔ یہ امتیازی سلوک اور تشدد کو برقرار رکھتا ہے۔ مردوں اور عورتوں دونوں کی صلاحیت کو محدود کرتا ہے اور تعلیم و صحت کی دیکھ بھال اور دیگر خدمات تک غیر مساوی رسائی کا باعث بن سکتا ہے تاہم یہ بات حوصلہ افزأ ہے کہ ہمارے ملک میں لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں ہر شعبہ زندگی بالخصوص تعلیم کے شعبے میں بہترین نتائج دیتی ہیں اور یہ ملک کے مستقبل کے لئے ایک مثبت علامت ہے لیکن پیش نظر مرحلہ یہ ہے کہ طالبات اگرچہ ملک کے ہر تعلیمی بورڈ میں نمایاں پوزیشنیں حاصل کرتی ہیں اور اُن کی کامیابیوں کے چرچے بھی بہت ہوتے ہیں لیکن جب ملازمتی مواقعوں کی بات آتی ہے تو خواتین کو یکساں مواقع میسر نہیں آتے۔ ’صنفی مساوات‘ بنیادی انسانی حق بھی ہے اور اس کی پاسداری اور احترام کیا جانا چاہئے۔ یہ ایک منصفانہ معاشرے کے قیام کی کلید ہے جو ہر طبقے سے افراد کو مساوی مواقع فراہم کرتا ہے۔