پشاور کہانی: ہوائی فائرنگ

چاند رات (عیدالفطر) کے موقع پر ’ہوائی فائرنگ‘ کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے ’پشاور پولیس‘ نے فیصلہ کیا ہے کہ اِس مرتبہ زیادہ سخت اقدام کرتے ہوئے ’ہوائی فائرنگ‘ کرنے والوں کو عید الفطر کی تعطیلات تک گرفتار (زیرحراست) رکھا جائے گا تاہم ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی ’اہل پشاور‘ تشویش کا شکار ہیں کیونکہ ’پشاور پولیس‘ کی جانب سے ہر سال اِسی قسم کے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے۔  اعلانات کے علاوہ ہوائی فائرنگ کے خلاف تشہیری مہمات بھی چلائی جاتی ہیں لیکن خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پشاور کے جنوبی مضافاتی علاقوں  اور شمالی علاقوں چارسدہ روڈ کی جانب دیہی علاقوں سے ہونے والی ہوائی فائرنگ کی گولیاں (بُلٹس) پشاور شہر ہی میں آ کر گرتی ہیں لہٰذا ایک بات تو یہ ہے کہ ہوائی فائرنگ پر قابو پانے کے لئے پشاور کے مضافاتی علاقوں میں پولیس کی گشت بڑھانا پڑے گی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پشاور میں قانونی (لائسنس یافتہ) و غیرقانونی (غیرلائسنس یافتہ) اسلحے کی بھرمار ہے۔ پشاور ہی میں اسلحہ ساز صنعتیں بھی ہیں جو کہ اگرچہ اِس بات کی پابند ہیں کہ اسلحہ اور گولیاں بنا لائسنس (دستاویزات) جاری نہیں کریں گی لیکن منشیات کی طرح اسلحے اور گولیوں کی خریدوفروخت کا دھندا بھی چھپ چھپا کر جاری رہتا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ جب کسی بھی اسلحہ ساز کارخانے اور اجتماعی طور پر اسلحہ ساز صنعتوں کو عیدالفطر کے موقع پر منہ مانگے مہنگے داموں اسلحے اور گولیوں کی فروخت سے زیادہ منافع مل رہا ہو تو کیا وہ اِس موقع کو ہاتھ سے جانے دیں گے؟ رمضان المبارک کے آغاز (چاند رات) کے موقع پر بھی ہوائی فائرنگ کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے پولیس کی گشت میں اضافہ کیا گیا تھا لیکن تب بھی زیادہ تر گشت اندرون شہر یا ’سٹی سرکلر روڈ‘ کے اطراف میں دیکھنے میں آئی تھی۔ ایک بہت ہی اہم ضرورت پشاور میں پولیس تھانہ جات و چوکیات کی تعداد میں اضافہ ہے کیونکہ آبادی بڑھ رہی ہے اور پولیس کے کسی ایک تھانے کے لئے عملاً ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اندھیرے میں ہونے والی ہوائی فائرنگ کا باآسانی سراغ لگا سکے۔ اِس سلسلے میں ڈرون ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جائے تو ہوائی فائرنگ کرنے والے مقامات کی ’جی پی ایس‘ کے ذریعے نشاندہی ممکن ہے۔ ہوائی فائرنگ جرم ہے اور جرم کسی بھی شکل و نوعیت میں یہ سنگین ہی رہتا ہے۔  اہل پشاور کی اکثریت ہوائی فائرنگ کی مذمت کرتی ہے۔ ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی جانب سے ہوائی فائرنگ کے خلاف بیانات جاری کئے جاتے ہیں لیکن اِس کے باوجود اگر صورتحال تبدیل نہیں ہو رہی تو ’پشاور دوستی‘ کا تقاضا یہ ہے کہ ”پشاور کو اسلحے سے پاک شہر قرار دیا جائے“ اور یہاں اسلحہ رکھنے کی اجازت صرف اور صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہونی چاہئے۔ اگر اسلحہ رکھنے اور اِس کی نمائش و استعمال کے حوالے سے قوانین و قواعد پر خاطرخواہ عمل درآمد نہیں ہو رہا اور صورتحال جان لیوا نتائج دے رہی ہے تو ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ’کان کو دوسری طرف سے پکڑا جائے‘ یعنی اسلحے سے پاک پشاور کی مہم چلائی جائے‘ جس سے پشاور پولیس کو آئندہ عام انتخابات میں مدد ملے گی۔ہوائی فائرنگ سے نمٹنے کے لئے پولیس حکام کے فیصلے پر (اُنیس اپریل سے) عمل درآمد کا آغاز اِس لحاظ سے بھی خوش آئند ہے کہ ’پولیس گشت‘ بڑھنے سے پشاور میں جاری سٹریٹ کرائمز پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی۔ اب تک کے شواہد میں ’سٹریٹ کریمنلز‘ موٹرسائیکلز کا استعمال کر رہے ہیں اور مختلف علاقوں میں ہونے والی وارداتوں کے شواہد سے پتہ چلا ہے کہ ایک موٹرسائیکل پر دو یا تین راہزن سوار ہوتے ہیں۔ یہ اپنے چہرے ماسک یا ہیلمٹ سے چھپائے ہوتے ہیں اور موٹرسائیکل کی نمبر پلیٹ اُتارے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ’سی سی ٹی وی‘ فوٹیج ہونے کے باوجود بھی اِن کی شناخت نہیں ہو پا رہی اگرچہ فی الوقت ’پشاور پولیس‘ کے فیصلہ سازوں کے سامنے یہ بات زیرغور نہیں عیدالفطر کے موقع پر موٹرسائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کی جائے گی کیونکہ ایسا ہونے سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آٹو رکشہ کے کرائے پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں اور اہل پشاور کا معمول ہے کہ اِن کی اکثریت عید جیسے مواقعوں پر قبرستانوں کا رخ کرتی ہے اُور اپنے اہل و عیال کے ہاں ’عید ملن‘ تقاریب میں شرکت بھی ایک معمول ہوتا ہے جس کے لئے موٹرسائیکل ایک بنیادی سواری ہے۔ اِس سال ہوائی فائرنگ کی روک تھام اور سٹریٹ کرائمز پر قابو پانا ’پشاور پولیس‘ کے لئے بڑے چیلنجز ہیں جبکہ دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کی وجہ سے ’عیدالفطر‘ پر ’سیکورٹی ہائی الرٹ‘ رکھنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔عیدالفطر کے موقع پر اہل پشاور فکر مند ہیں اور یہی تفکرات چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس مسرت ہلالی اور پشاور پولیس کے سربراہ (کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر) اعجاز خان کے درمیان ملاقات میں بھی زیرغور آئے ہیں۔ کیپیٹل سٹی پولیس افسر کی جانب سے چیف جسٹس کو بتایا گیا کہ تہواروں کے موقع پر ہوائی فائرنگ سے کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور کئی زندگی بھر کے لئے مفلوج ہوئے ہیں اِسی لئے ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی چاند رات ’خصوصی مہم‘ چلائی جائے گی اور مغرب (افطار) کے فوراً بعد سے پشاور کے چپے چپے پر نظر رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ سٹی پولیس چیف ہوائی فائرنگ سے نمٹنے کی مہمات اور اِن کی منصوبہ بندی کے مراحل سے عدالت عالیہ کو آگاہ کیا اور پشاور کے پولیس سربراہ نے عدالت عالیہ کی چیف جسٹس سے درخواست کی کہ ہوائی فائرنگ کے تمام گرفتار افراد سے عدلیہ رعایت نہ کرے اور اُنہیں سیدھا جیل بھیجا جائے تاکہ وہ اپنی عید سلاخوں کے پیچھے گزار سکیں۔ توجہ طلب ہے کہ قوانین و قواعد تو پہلے بھی تھے اور آج بھی موجود ہیں لیکن اُن پر بلاامتیاز عمل درآمد نہیں ہوتا۔  قابل ذکر ہے کہ ہر سال عید بالخصوص ’چاند رات (عیدالفطر)‘ کے موقع پر پشاور میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں گولیاں چلائی جاتی ہیں جس سے ناقابل تلافی نقصانات ہوتے ہیں۔ پشاور پولیس نے عمائدین علاقہ کو ہوائی فائرنگ سے متعلق اپنے فیصلوں اور قبیح فعل کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے لئے مہمات بھی شروع کر رکھی ہیں جس میں اُنہیں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے اور یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے کہ پشاور کم سے کم اِس ایک نکتے پر تو متفق ہے کہ ’ہوائی فائرنگ کسی بھی موقع اور کسی بھی صورت نہیں ہونی چاہئے۔‘ اِس اتفاق رائے کو غنیمت جانتے ہوئے اگر ’پشاور پولیس‘ سٹریٹ کرائمز روکنے کے لئے جامع حکمت عملی مرتب کرے اور گلی کوچوں میں مقامات کی نشاندہی کر کے اِہل علاقہ سے اپنی مدد آپ کے تحت ’آن لائن‘ کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن (نگران) کیمروں‘ کی تنصیب ’پولیس کی زیرنگرانی‘ کروائی جائے  تو جب تک ’سیف سٹی پراجیکٹ‘ مکمل نہیں ہوتا اُس وقت تک اِس حکمت عملی سے خاطرخواہ مدد مل سکتی ہے یقینا اِس بات کی اجازت کسی کو بھی نہیں ہونی چاہئے کہ وہ وقتی خوشی کے لئے کسی خاندان کی عید کو دائمی سوگ میں تبدیل کر دے۔