مچھروں کا موسم

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا، امراض قلب، ایڈز اور دیگر مہلک امراض کے مقابلے میں کہیں زیادہ لوگ ملیریا سے ہلاک ہوتے ہیں۔ملیریا والا مچھر دنیا کے ہر ملک میں وافر تعداد میں پایاجاتا ہے۔یہ بھنبھناتا ہوا ننھا سا اُڑنے والا کیڑا انسان کے ناک میں دم کردیتا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اس ننھے مخلوق سے نالاں ہیں۔اس کا مقابلہ کے لیے تیاریاں کی جاتی ہیں مگر مچھروں کے سامنے کسی کی ایک نہیں چلتی۔اپنے سامنے ہم جنس کو مرتے دیکھ کر بھی وہ پسپاہونے کوتیار نہیں ہوتے اور بڑھتے چلے جاتے ہیں۔اسے مارنے اور خودسے دور رکھنے کے لئے طرح طرح کے مصالحہ جات بھی تیار کئے جاتے ہیں کہ ان کی بو سے مچھر بھاگ جائیں۔ لیکن ان کے پاس ہر وار کا جواب ہوتا ہے۔ان کی دیدہ دلیری بھی مثالی ہے۔پیٹھ پیچھے حملہ نہیں کرتے بلکہ علی الاعلان نعرے لگاتے ہوئے حملہ آور ہوتے ہیں۔ان کا ایک نعرہ  انسان کی رات کی پوری نیند حرام کردیتا ہے۔اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ امیر، غریب، ادنی،اعلی، بچوں،بوڑھوں، عورتوں، مردوں میں کوئی امتیاز نہیں برتتا۔سب کے ساتھ ایک جیسا جارحانہ سلوک کرتاہے۔انسان ہی نہیں، جانور بھی ان کی ایذا رسانی سے محفوظ نہیں رہتے مچھر جانتا ہے کہ دشمن کے دوست بھی دشمن ہوتے ہیں۔مردوخواتین نے ہردور میں مچھروں کے خلاف محاذ آرائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہر شخص اپنی سمجھ،عقل اور فہم و فراست کے مطابق مچھروں پر الزام لگاتا اور ان کے خلاف راہ عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔مگرمچھرکسی سازش کی پروا نہیں کرتا۔طاعون جیسی مہلک مرض نے تباہی مچائی تو انسان نے یہ الزام بھی مچھر کے سر باندھ دیا۔ملیریا کامرض پھیلا تو اس کا الزام بھی مچھر پرلگادیا گیااور مچھروں کی نسل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبے بنائے گئے۔مگر سارے منصوبے دھرے ہی رہ گئے۔مچھر کو بھی اپنی بقا کی فکر رہتی ہے اور وہ انسانوں کی طرف سے اپنے خلاف سازشون کو دیکھ سن رہاہوتا ہے۔کہتے ہیں کہ انسان جب اپنے سے زیادہ چالاک اور طاقتور کے سامنے بے بس ہوتا ہے تو پھر اسے برا بھلا کہتا ہے۔مچھر کو بھی  ننھے حشرات میں سے ایک قرار دیا جاتاہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مخلوق کوڑے،کرکٹ،میل کچیل سے پیدا ہوتا اور گندی جگہ زندگی بسر کرتا ہے اوربزدل اتنا ہے کہ اس وقت حملہ کرتاہے جب کہ انسان سو جاتے ہیں۔ اورسوتے انسان پر وار کرنا،مردانگی نہیں بلکہ انتہا درجے کی بزدلی ہے۔دوسری جانب مچھر کی سنو تو وہ آدمی کو کھری کھری سناتا ہے اورکہتا ہے کہ برا بھلا کہنے کے بجائے ہمت ہے تو مقابلہ کرو۔ مچھرکالا سہی،بدرونق سہی، نیچ ذات سہی۔مگرہماری ہمت اور جرات کو چیلنج نہیں کیا جاسکتاہم پہلے للکارتے اور پھر حملہ کرتے ہیں۔کان میں آکر الٹی میٹم دے دیتے ہیں کہ ہوشیار ہو جا۔ اب حملہ ہوتا ہے۔خود کو بچاسکتے ہو تو بچالو۔ہم دن بھر اپنے خلوت خانے میں رہتے ہیں رات کوباہر نکلتے ہیں اور پھر تمام شب گایا کرتے ہیں۔ اب ذرا سنجیدہ بات بھی ہو جائے تو حقیقت یہ ہے کہ مچھر اس وقت کئی طرح کی بیماریوں کا پیش خیمہ ہے اور اس حوالے سے احتیاطی تدابیر احتیاط کر کے ہی ان بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے جا بجا موجود کھڑے پانی کے جوہڑ مچھروں کے لئے افزائش کا بڑا ذریعہ ہے اس لئے آس پاس کے ماحول کو صاف ستھرا رکھ کر ہم نے صرف مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا تدارک کر سکتے ہیں بلکہ دیگر کئی مسائل سے بھی چھٹکارا پا سکتے ہیں۔