عالمی جنگ: بھاری قیمت

 امریکی محکمہئ دفاع ’پینٹاگون‘ کے انکشافات سے امریکہ کی عالمی تنازعات اور جنگوں کو ہوا دینے کے کردار میں ایک نئے اور قابل مذمت باب کا اضافہ ہوا ہے جسے پوری دنیا میں امن پسند تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ پینٹاگون کی منظرعام پر آنے والی دستاویزات وہ ’جنگی حکمت عملیوں کے نقشے‘ ہیں جو امریکہ نے روس کے خلاف یوکرین فوجیوں کی مدد کرنے کے لئے تیار کئے اور اگرچہ روس ایک عرصے سے اِن کے بارے میں کہہ رہا تھا لیکن دنیا روس کی بات کا یقین نہیں کرتی تھی اور اب ثابت ہو گیا ہے کہ یوکرین میں جنگ کے آلاؤ کو بھڑکانے میں روس سے زیادہ امریکہ کا ہاتھ ہے اور یہ پوری صورتحال کسی بھی طرح خوش آئند نہیں کیونکہ روس پہلے ہی جوہری ہتھیاروں پر پڑی گرد صاف کر کے دنیا کو پیغام دے چکا ہے کہ اگر اُس کے راستے میں آنے کی کوشش کی گئی اور اُسے نقصان پہنچایا گیا تو وہ کسی بھی انتہائی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ امریکی خفیہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح امریکہ کے خفیہ اداروں (انٹیلی جنس کمیونٹی) کے اہلکار یوکرین میں موجود ہیں اور وہ روس کا مقابلہ کر رہے ہیں‘ جس کی وجہ سے چند روزہ جنگ مہینوں طویل ہو گئی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ امریکہ اپنی مواصلاتی اور خلائی ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کر رہا ہے اور وہ اہم روسی فوجی عہدیداروں کی نجی گفتگو سنتا ہے جس کی وجہ سے روس کی فوجی حکمت عملی امریکہ کو معلوم ہو جاتی ہے اور وہ یوکرین میں روس کی ناکامیوں کے لئے ذمہ دار ہے۔ لیک ہونے والی دستاویزات سے یوکرین کے عوام میں خوشی پائی جاتی ہے کیونکہ اب اُنہیں یقین ہو گیا ہے کہ امریکہ روس کے خلاف جنگ میں کود چکا ہے لیکن خطے کے ممالک کے لئے یہ کسی بھی طرح اچھی خبر نہیں ہے۔ یوکرین کو روس کی انتہائی طاقتور فوج کے خلاف لڑنے کے لئے ہتھیار اور پیسوں کی شکل میں امریکی کی جانب سے جو مدد مل رہی ہے درحقیقت یہ دنیا کو عالمی جنگ میں دھکیل سکتی ہے اور پہلے ہی دنیا پر عالمی جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں!امریکی صدر جو بائیڈن انتظامیہ نے خفیہ دستاویزات کے ظاہر (leak) ہونے پر اظہار برہمی کیا ہے اور یہ معلومات کیسے ’لیک‘ ہوئیں اِس کی انتہائی جارحانہ و سنجیدہ انداز میں تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ پینٹاگون کے اندر بہت سے لوگوں کو اِن حساس معلومات تک رسائی حاصل تھی اور لیک ہونے کے اصل ذریعہ کا پتہ لگانا مشکل ہے تاہم یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جب امریکی تحقیقات کرتے ہیں تو کسی نہ کسی نتیجے تک پہنچ ہی جاتے ہیں اور ماضی میں بھی ایسی ہی ’لیکس‘ کے ذمہ داروں کو تلاش کر لیا گیا تھا حالانکہ تب لاکھوں کی تعداد میں دستاویزات ’لیک‘ ہو گئیں تھیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ تقریباً تین سال قبل ایسی ہی کوشش کرنے والے ایک امریکی اہلکار جسے ’وسل بلور‘ کہا جاتا ہے نے یوکرین سے متعلق امریکی صدر کے معاملات و معمولات کے بارے میں معلومات ظاہر کر دی تھیں۔ اُس وقت نشانہ صدر ٹرمپ بنے تھے جنہوں نے یوکرین کے صدر زیلنسکی کو جو بائیڈن پر کیچڑ اُچھالنے کا کہا تھا تاکہ اِس سے ٹرمپ کو انتخابات میں مدد ملے لیکن یہ سارا منصوبہ خاک میں مل گیا اور ٹرمپ کی رہی سہی مقبولیت اور امریکی عوام کی نظروں میں اُن کی قدر کم ہوتی چلی گئی۔ امریکی عوام کے لئے کسی رہنما کا سب سے بڑا منفی پہلو یہ ہوتا ہے کہ اُس نے عوام سے کتنے جھوٹ بولے۔ جس کے جھوٹ زیادہ ہوتے ہیں اُسے انتخابی شکست ہو جاتی ہے اور سچ و جھوٹ کا موازنہ کرنے میں امریکی ذرائع ابلاغ مرکزی کردار ادا کرتے ہیں جو ایک الگ موضوع ہے۔لیفٹیننٹ کرنل الیگزینڈر ونڈمین جو کہ سال 2019ء میں قومی سلامتی کونسل کے عہدیدار تھے۔ انہوں نے زیلنسکی (یوکرین کے صدر) کے ساتھ ٹرمپ کی گفتگو سنی اور فوری طور پر اپنے باس کو خدشات سے آگاہ کیا اگرچہ اُن کی ذمہ داریوں میں خارجہ پالیسی کے معاملات پر فکر مند ہونا شامل نہیں تھا لیکن وہ ٹرمپ کے مواخذے کے لئے کمربستہ ہوگئے اور جب کیس کی سماعت ہوئی تو اُس دوران انہوں نے کانگریس میں گواہی بھی دی۔ انہوں نے فخر سے اور کھلے عام حساس معلومات لیک کرنے کے اپنے عمل کا دفاع کیا۔ امریکی صدر کی غیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ فون پر ہونے والی بات چیت انتہائی خفیہ ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ڈیموکریٹک پارٹی اور امریکہ کے معروف نشریاتی ادارے کیبل نیوز نیٹ ورک (سی اِین اِین) نے اس اقدام کو ٹرمپ کے خلاف کبھی نہ ختم ہونے والی لڑائی میں غیبی مدد کے طور پر دیکھا۔ امریکی ایوان نمائندگان (کانگریس) کی اسپیکر ’نینسی پلوسی‘ نے اُس وقت ونڈمین کو ’محب وطن شخص‘ قرار دیا تھا۔ اسی طرح سال 2013ء میں اُس وقت کی ڈیموکریٹک پارٹی اور اُس کے صدر کو اِس بات پر یقین نہیں تھا کہ امریکی صدر کس طرح امریکی شہریوں کی جاسوسی کر رہے ہیں لیکن جب اِس سے متعلق معلومات لیک ہوئیں تو سب نے مذمت کی اور معلومات لیک کرنے والے شخص ایڈورڈ سنوڈن کو ”محب وطن“ قرار دیا گیا۔ دوسری طرف امریکی حکومت نے تادیبی کاروائی کرتے ہوئے ’سنوڈن‘ کا امریکی پاسپورٹ منسوخ کر دیا جس کی وجہ سے وہ روسی ہوائی اڈے پر پھنس گئے جس کے بعد انہیں روس میں پناہ کی درخواست کرنا پڑی‘ اصولاً امریکہ کا یوکرین سے کوئی لینا دینا نہیں ہونا چاہئے۔ یہ روس اور یوکرائن (دو ہمسایہ ممالک) کے درمیان تنازعہ ہے لیکن امریکہ کی تاریخ رہی ہے کہ یہ اپنی سرحدوں سے دور جنگیں اور تنازعات برپا کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر روس بھی امریکہ کی طرح دیگر ممالک میں مداخلت شروع کر دے جیسا کہ وہ امریکہ کے خلاف کیوبا یا کسی دوسرے ملک کی مدد کرے تو کیا یہ بات امریکیوں کو پسند آئے گی اور کیا وہ اِس قسم کی ’جارحیت‘ کا جواب خاموش رہتے ہوئے دیں گے؟ امریکہ نے یوکرین کو اسلحے سے بھر دیا ہے۔ امریکہ کے ہتھیار ساز اداروں کے لئے یوکرین جنگ خوش قسمتی لائی ہے جبکہ امریکہ میں افراط زر کا شکار (امریکی) عوام چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی سرحدوں سے دور جنگی مہمات کی بجائے اندرون ملک فلاح و بہبود پر زیادہ خرچ کرے۔ کم تنخواہ والی ملازمتوں کی وجہ سے امریکی عوام کو مشکلات درپیش ہیں جبکہ صحت و تعلیم اور تحفظ ماحول جیسے شعبوں میں بھی زیادہ حکومتی سرمایہ کاری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔