اظہار ِمسرت تشکر کے اظہار (عید الفطر) کے کئی پہلو اور کئی مطالب ہیں جن میں سے اگر صرف بنیادی مقاصد ہی کا احاطہ کر لیا جائے تو عید الفطر ’بامقصد تہوار‘ میں تبدیل ہو سکتی ہے اور فلسفہئ عید کو سمجھتے ہوئے اِس کے ثمرات و برکات سے دنیا و آخرت کی زندگی گل و گلزار (کامیاب) ہو سکتی ہے اِس میں سرفہرست مطلب و مقصد ان طبقات کا خیال رکھنا ہے جن کے لئے عید کی خوشیاں معاشی مشکلات‘ مہنگائی‘ بیروزگاری و غربت کی وجہ سے الگ معنی رکھتی ہیں۔ عید کی خوشیاں ایسے مستحقین کے ساتھ مل بانٹ کر منانے سے ’دوبالا‘ ہو سکتی ہیں جس کے لئے زیادہ سے زیادہ اور ایک سے زیادہ مستحقین کو صدقہئ فطر ادائیگی کی صورت کیا جا سکتا ہے۔ رواں برس (دوہزارتئیس) کے لئے صدقہئ فطر کی کم سے کم مقررہ شرح (بحساب گندم) 300 سے 400 روپے مقرر کی گئی ہے تاہم اگر صدقہئ فطر اِس مقررہ شرح سے زیادہ اور ایک سے زیادہ مرتبہ ادا کیا جائے تب بھی کوئی حرج نہیں بلکہ پیش نظر یہ ہونا چاہئے کہ عید سے زیادہ بہتر ثواب کمانے کا کوئی دوسرا موقع ہو ہی نہیں سکتا!عید کا دوسرا پہلو ’صلہئ رحمی‘ ہونا چاہئے‘ جس کی اسلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ وہ سبھی عزیز و اقارب (رشتے دار) جن سے کسی بھی وجہ سے ناراضگی چل رہی ہو تو عید ایک ایسا موقع (جواز) فراہم کرتا ہے کہ اختلافات و تنازعات بھلا کر ایک دوسرے سے بغل گیر ہوا جائے۔ اِس سلسلے میں جو فریق دوسرے کو معاف کرنے میں پہل کرے گا‘ اُسے زیادہ ثواب ملے گا تو کوشش کرنی چاہئے کہ اسلام کا صرف یہی حکم نہ مانا جائے کہ رمضان المبارک میں صوم و صلٰوۃ کی پابندی کے ساتھ تکمیل کے موقع پر عید الفطر کی خوشی منائی جائے بلکہ اسلام کے بتائے خاندانی نظام اور انسانی معاشرے کے ایک دوسرے سے جڑے تعلقات کو بھی بحال کیا جائے اور یہی ’عید کی روح‘ ہے کہ اِس کی خوشی کو خالص ترین رکھا جائے اور اِس میں بغض و عناد کی آمیزش نہ ہونے دی جائے عید غور و فکر‘ تجدید عہد اور محبت پھیلانے کا دن ہے۔عید محض خوشی نہیں بلکہ خوداحتسابی کا موقع بھی ہے۔ عید کے اِس تیسرے پہلو پر بھی غور ہونا چاہئے کہ اِس موقع پر اپنے ’روحانی مرتبے‘ پر غور و فکر کیا جائے جو ایک ماہ کی ریاضت و مشقت سے حاصل ہوا ہے اور اِن پاک و پاکیزہ کیفیات کا عید جشن کے ساتھ ہی اختتام نہیں ہونا چاہئے اور وہ سبھی گناہ جنہیں گناہ سمجھ کر ترک کیا گیا اور وہ سبھی نیکیاں جنہیں نیکی سمجھ کر اختیار کیا گیا جیسا کہ نظر کی حفاظت کی گئی۔ جھوٹ بولنے‘ لڑائی جھگڑے سے گریز کیا گیا۔ عبادت کو دیگر معمولات ِزندگی پر ترجیح دی گئی۔ ہر خاص و عام سے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا گیا۔ عبادت گاہوں میں رش کے باوجود صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا گیا۔ گردوپیش میں غریب و مستحقین کی ضروریات کا خیال رکھا گیا وغیرہ تو روحانی ترقی کا یہ سفر اور عبادات کے معمولات عید کے بعد بھی جاری رہنے چاہیئں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہی عید الفطر کے حقیقی مفہوم اور اِس سے حقیقتاً فائدہ اُٹھانے کا باعث عمل ہوگا۔ اِس لئے عید الفطر کے موقع پر نیت اور عزم ضروری ہے کہ روحانی مراتب اور قول و فعل کی پاکیزگی میں اضافے کے لئے کوشش و محنت جاری رکھی جائے گی۔ علم و حکمت کے باب‘ امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے کہ ”کسی مومن کے لئے عید کا موقع وہی ہے جس دن اُس سے دانستہ کوئی گناہ سرزد نہ ہو“اب آتے ہیں چند عصری و زمانی پہلوؤں کی طرف جن کی وجہ سے عید جیسی مشترکہ ثقافت اور روایت کے رنگوں کی چاشنی ماند پڑ جاتی ہے۔ فطری خواہش یہی ہوتی ہے کہ عید کا تہوار اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ ادا کیا جائے لیکن اِس مقصد کے لئے آبائی علاقوں کو سفر کرنے والوں کو جس پریشانی (تکلیف) سے واسطہ پڑتا ہے وہ نئی بات نہیں۔ ہر سال عید کے موقع پر پبلک ٹرانسپورٹ کے شرح کرایہ میں خودساختہ اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ گاڑیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار کئے جاتے ہیں جس سے عید کے موقع پر سفر کسی ڈروانے خواب جیسا لگتا ہے چونکہ متعلقہ حکومتی ادارے (ٹرانسپورٹ اتھارٹی) کے اہلکاروں کی عید تعطیلات ہوتی ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی تعداد بھی کم ہوتی ہے جن کی ترجیح عبادت گاہوں کی حفاظت اور شہر کے داخلی و خارجی راستوں کی چیکنگ ہوتی ہے تاکہ امن و امان برقرار رہے۔ اِس پورے منظرنامے سے آگاہ ’پبلک ٹرانسپورٹرز‘ مسافروں کے لئے انتہائی پریشانی کا باعث بنتے ہیں چونکہ عوامی شکایات کے لئے کوئی بھی مناسب و فعال اور مستعد نظام موجود نہیں ہے اِس لئے ناجائز منافع خوری عید پر عام ہوتی ہے جو کسی بھی صورت اِس ’حقیقی خوشی و مسرت‘ کے شایان شان نہیں ہے‘رواں برس (دوہزار تیئس) عیدالفطر کے موقع پر بینکوں نے ’نئے کرنسی نوٹ‘ جاری نہیں کئے‘ جس کی وجہ سے بطور عیدی ’پرانے کرنسی نوٹوں‘ ہی میں لین دین ہو گا۔ اِس صورتحال میں کرنسی ڈیلرز کی لاٹری نکل آئی ہے جو ایک ہزار روپے کے نئے کرنسی نوٹ تیرہ سے چودہ سو روپے کے عوض فروخت کر رہے ہیں۔ بچوں کو عید کے موقع پر نئے کرنسی نوٹوں کا انتظار ہوتا ہے جنہیں وہ سنبھال رکھتے ہیں اور بار بار عیدی کے طور پر ملنے والی اِس رقم کو گننے اور دوسروں سے موازنہ کرتے ہیں یہ ایک خوبصورت روایت ہے جسے دیکھ کر بچپن یاد آ جاتا ہے تاہم اِس مرتبہ مہنگائی کے تناسب سے بچوں کو زیادہ عیدی دی جائے گی‘شاید اکثریت ایسا نہ کر سکے البتہ ضروری ہے کہ بچوں کی رہنمائی کی جائے کہ وہ کھلونا ہتھیاروں اور اُن ناقص المعیار کھانے پینے کی اشیا بالخصوص نمکو اور پاپڑوں کی خریداری سے باز رہیں‘ جو کم قیمت اور چٹخارے دار ہونے کی وجہ سے خریدے جاتے ہیں اور اِن سے گلے‘ سانس‘ معدے اور آنتوں کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ ڈبوں میں بند کم قیمت‘ غیرمعیاری مشروبات بھی اِسی زمرے میں آتے ہیں۔