مالی بدعنوانیوں بالخصوص سرمائے کی غیرقانونی نقل و حمل (منی لانڈرنگ) کی تحقیق کرنے والے وفاقی ادارے نے سراغ لگایا ہے کہ ’نوادرات‘ کی خرید و فروخت کا دھندا ’منی لانڈرنگ‘ سے بھی جڑا ہوا ہے بلکہ اِن کے ذریعے کروڑوں ڈالر باآسانی بیرون منتقل کئے جا رہے ہیں‘ پاکستان کے کئی شہر بالخصوص پشاور سے چارسدہ‘ صوابی اور سوات (مالاکنڈ ڈویژن) تک پھیلے شاندار ثقافتی ورثے کا گھر ہیں‘ جن کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے اور اِن مقامات سے ملنے والی ثقافتی نوادرات کی غیر قانونی تجارت بالخصوص پاکستان پر مالی نظم و ضبط لاگو کرنے جیسی عالمی پابندیوں کے بعد سے فروغ پائی ہے اور اب ’نوادرات‘ منی لانڈرنگ میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں! ابتدائی تحقیقات کے مطابق چوری شدہ نوادرات بیرون ملک بھیجی (سمگل) کی جاتی ہیں اور اُن سے حاصل ہونے والا غیرقانونی منافع ’بلیک مارکیٹ‘ کے راستے منشیات کی سمگلنگ جیسی دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کی فنڈنگ کے لئے استعمال ہو سکتا ہے۔ ثقافتی نوادرات کی غیر قانونی تجارت کا سراغ لگانا اور اسے ریگولیٹ کرنا مشکل کام ہے کیونکہ یہ کاروبار غیردستاویزی ہے
اور اِس کا کوئی مرکز بھی نہیں جس کی وجہ سے نوادرات کو بین الاقوامی سرحدوں کے پار آسانی سے منتقل کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے معمہ (درد سر) بنی ہوئی ہے کہ نوادرات کو مناسب دستاویزات یا جانچ پڑتال کے بغیر خریدا اور فروخت کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کی قدر اور تصدیق آسان نہیں ہوتا اور خاص علم و تجربے کے حامل افراد ہی اِن کی شناخت اور عالمی سطح پر اِن کی منڈیوں سے آگاہ ہیں۔ اِس صورتحال میں جبکہ حکومت کا نوادارت کی مارکیٹ اور کاروبار پر کنٹرول نہیں تو جرائم پیشہ گروہ اِسکمزوری کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر‘ کوئی مجرم غیر قانونی ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ایک بیش قیمت مصوری کا شاہکار خرید سکتا ہے اور پھر اُسے کسی جائز نیلامی گھر یا ڈیلر کے ذریعے فروخت کر کے کالے دھن کو کچھ شرح سے ٹیکس ادا کر کے سفید کر لیتا ہے اور اِس پر حسب قانون کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔ نوادرات کو اُن کی قیمت اور مارکیٹ میں شفافیت کے فقدان کی وجہ سے منی لانڈرنگ کے ممکنہ آلے کے طور پر استعمال کرنے کا انکشاف دوران تفتیش ہوا ہے۔ اِس سلسلے میں رہنمائی کے طور پر یورپی یونین میں پیش کردہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے ایک جائزہ رپورٹ سے بھی مدد (رہنمائی) لی گئی ہے جس میں آرٹ اور نوادرات کی مارکیٹ کا ذکر منی لانڈرنگ کے ممکنہ ہائی رسک سیکٹر کے طور پر کیا گیا ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی 2019ءکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قدیم اشیا سمیت قیمتی اشیا عام طور پر منی لانڈرنگ کے مقاصد کے لئے استعمال کی جاتی ہیں اور بالخصوص منی لانڈرنگ کے لئے نوادرات کی خریدوفروخت خاص طور پر پرکشش ہیں کیونکہ ان کی قیمت عمومی اشیا ءسے زیادہ ہوتی ہے اور اِس کی خریدوفروخت میں اکثر لین دین کرنے والوں کے نام بھی ظاہر نہیں کئے جاتے۔
معروف جریدے وال سٹریٹ جرنل میں سال دوہزاربیس کے دوران شائع ہونے والے ایک مضمون میں امریکی محکمہ¿ انصاف کی جانب سے منی لانڈرنگ کے لئے نوادرات کے استعمال کی تحقیقات سے متعلق کچھ شواہد کا ذکر کیا گیا۔ امریکی تفتیش کاروں نے ایک معروف آرٹ ڈیلر پر توجہ مرکوز کی‘ جس پر الزام تھا کہ اس نے چین کے ایک ارب پتی شخص کے لئے منی لانڈرنگ کی ہے۔ مضمون میں آرٹ اور نوادرات کی مارکیٹ میں شفافیت کے فقدان اور مارکیٹ کو منی لانڈرنگ کے خطرے سے دوچار کرنے والے عوامل کے طور پر نشاندہی کی گئی ہے اور کسی قدیمی شے کی ملکیت اور اُس کے ماخذ کا پتہ لگانے سے جڑے چیلنجوں پر روشنی ڈالی گئی ہے تاہم پاکستان کے اپنے معروضی حالات ہیں اور اِس میں ثقافتی اشیاءو نوادرات کی چوری اور فروخت نسبتاً آسان ہے کیونکہ تفتیش کاروں کی تربیت میں نوادرات کی شناخت شامل ہی نہیں ۔ پاکستان کے جن ثقافتی مقامات سے اِس قسم کی لوٹ مار کے متعدد واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں اُن میں ٹیکسلا کا عجائب گھر بھی شامل ہے جہاں سے نوادرات چوری ہوئیں ۔