کراچی کے چڑیا گھر میں ’نور جہاں‘ نامی ہتھنی کے مرنے اور اُسے سپرد خاک کرنے کی خبروں کو عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی توجہ دی ہے۔ یہ خبر اِس لئے بھی بڑی ہے کیونکہ سترہ سال میں بالعموم ہاتھیوں کی موت نہیں ہوتی جب تک کہ اُنہیں جسمانی اذیت یا کم خوراک کا سامنا نہ کرنا پڑے اور یہی وجہ ہے کہ جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والوں نے ’نور جہاں‘ کی موت کا نوٹس لیا ہے اور اُن محرکات کی تلاش اور غوروخوض ہو رہا ہے کہ ہتھنی کی موت کی وجہ کیا تھی۔ یہ ایک اہم سوال ہے اُور اِس ایک سوال سے پاکستان میں چڑیا گھروں کی قسمت کا فیصلہ بھی جڑا ہونا چاہئے۔ جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ’فور پاوز‘ کا کہنا ہے کہ ’نور جہاں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ چند روز میں مل جائے گی لیکن نورجہاں کی موت کا دردناک سفر گزشتہ برس سے شروع ہوا اور اُس سے متعلق شہ سرخیوں میں آنے والی تفصیلات بھی اُس کی زندگی نہ بچا سکیں۔ دنیا بھر سے جانوروں کے حقوق کے کارکنوں نے ’نور جہاں‘ کی حمایت میں آواز اُٹھائی لیکن جو کچھ بھی کرنا تھا وہ تو پاکستان ہی کے ہاتھ میں تھا۔ ’نورجہاں‘ متعدد بیماریوں میں مبتلا تھی۔ قبل ازیں (دوہزاربارہ) میں اُس کے دانت ہٹانے کے لئے ایک سرجری کی گئی تھی جس کے بعد وہ دیگر بیماریوں میں بھی مبتلا رہی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ چڑیا گھروں کے معاملات نہ تو شفاف ہیں اور نہ ہی وہاں فراہم کردہ سہولیات جانوروں کو اُن کے قدرتی ماحول سے قریب رکھتی ہیں اور اِس میں سنگین خرابیاں ہیں۔ سال 2022ء کے دوران اسلام آباد چڑیا گھر میں بھی ایک ہتھنی مر گئی تھی جس
کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ اُسے دل کا دورہ پڑا تھا۔ ایسی ہی صورتحال کا سامنا لاہور کے چڑیا گھر میں بھی ہاتھی اور دیگر جانوروں کو کرنا پڑا‘ جس کے بعد وہاں کے منتظم (ڈائریکٹر) کو عہدے سے وقتی طور پر ہٹا دیا گیا تھا۔ جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی غیر ملکی تنظیموں بشمول مشہور شخصیات نے پاکستان کے چڑیا گھروں کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے چڑیا گھروں سے جانوروں کو رہائی دلائی جائے۔ یہ تمام تر معاملات اور صورتحال متقاضی ہے کہ اس تاثر کو ختم کیا جائے کہ پاکستان میں چڑیا گھر ہمیشہ ہی سے نظر انداز اور دیکھ بھال کی کمی کی تصویر رہے ہیں۔ گزشتہ دو برس میں کراچی چڑیا گھر میں چار جنگلی جانور ہلاک ہو چکے ہیں جن میں ایک افریقی شیر‘ ایک سفید شیر‘ ایک گولڈن ٹیبی ٹائیگر اور ہتھنی (نور جہاں) شامل ہیں۔ ہاتھی کے علاوہ دیگر جانوروں کی موت کو ’قدرتی وجوہات‘ قرار دیا گیا جبکہ ’نورجہاں‘ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ابھی آنا باقی ہے تاہم متعدد رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ چڑیا گھر میں جانوروں کے ڈاکٹروں کی کمی اور دیگر عملے کی کمی جانوروں
کے لئے جان لیوا مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ حکام سخت فیصلے کریں اور چڑیا گھروں کو بند کرنے کے مطالبے کو سنجیدگی سے سنیں بصورت دیگر جانوروں کی اموات ہوتی رہیں گی۔ معاشی مسائل میں گھرے پاکستان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ چڑیا گھر کے تمام جانوروں کے لئے کافی خوراک اور اُنہیں قدرتی ماحول فراہم کر سکے۔ ’نورجہاں‘ کی بیماری کا ’بڑی خبر‘ بننا محض اتفاق تھا ورنہ چڑیا گھر کے جانوروں کی کہانیاں شاذ و نادر ہی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔ زندہ رہ جانے والے باقی تین ہاتھیوں مدھوبالا اور سفاری پارک کے سونو و ملیکا کی وہ مناسب دیکھ بھال ہونی چاہئے جس سے نور جہاں محروم رہی۔ اگر پاکستان اپنے چڑیا گھر چلانے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اسے رکھوالوں کی بیرون ملک سے تربیت میں بھی سرمایہ کاری کرنا ہوگی تاکہ وہ نئی مہارتیں سیکھ سکیں اور جانوروں کی دیکھ بھال مزید مؤثر طریقے سے کرسکیں۔ نور جہاں کی موت کے بعد آنے والی خبروں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سری لنکا نے مزید دو ہاتھی تحفے کے طور پر پاکستان بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی ہے اگر یہ اطلاعات درست ہیں تب بھی فیصلہ سازوں کو مزید جانوروں کی صورت ذمہ داریاں نہیں لینی چاہئیں۔ تسلیم کرنے میں مضائقہ نہیں کہ ہمارے ہاں جنگلی جانوروں کی دیکھ بھال کرنے کی خاطرخواہ صلاحیت پیدا کرنا ہوگی، دوسری صورت میں مزید جنگلی جانور درآمد نہیں کرنے چاہئیں جب تک کہ چڑیا گھروں میں موجودہ جانوروں کو صحت مند ماحول اور علاج کی مناسب سہولیات میں اضافہ (توسیع) نہیں کر دیا جاتا۔