چترال شندور روڈ منصوبے کا خاتمہ

پاکستان کے شمال مغرب میں جغرافیائی اور دفاعی لحاظ سے اہم شاہراہ چترال شندور روڈ کی تعمیرکا اہم منصوبہ ختم کردیا گیا‘ منصوبے پرکام میں مصروف مشینری واپس منگوالی گئی‘153کلو میٹر طویل چترال شندور روڈ کی چوڑائی سات میٹر تھی جسے 30میٹر تک چوڑا کرنے کیلئے اضافی زمین کی خریداری پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے تھے چترال سے بونی تک سڑک کو توسیع دینے کے لئے تارکول بھی اکھاڑ دیا گیا تھا‘اس اہم منصوبے کو ایس ٹو کا نام دیاگیا تھا‘منصوبے کو دو سال کے عرصے میں چار مرحلوں میں مکمل ہونا تھا‘پہلا مرحلہ 39کلو میٹر چترال پریت سیکشن، دوسرا 40کلو میٹر پریت بونی سیکشن، تیسر  ا38کلو میٹر بونی شیداس سیکشن، چوتھا اور آخری مرحلہ 35کلو میٹر شیداس شندور سیکشن تھا‘ منصوبے میں 23پل بھی شامل ہیں‘ اس منصوبے پر لاگت کا ابتدائی تخمینہ 17ارب روپے لگایاگیا تھا تاہم تعمیراتی سامان مہنگا ہونے کی وجہ سے نظر ثانی شدہ تخمینہ لاگت 21ارب روپے لگایاگیا‘ یہ منصوبہ اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ لواری ٹنل کی تکمیل کے بعد چترال کا ملک کے دیگر حصوں سے سال بھر رابطہ برقرار رہتا ہے‘ شندور سے غذر، ہنزہ اور گلگت کے راستے اس سڑک کو شاہراہ ریشم کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے اور یہ سی پیک کے متبادل روٹ کے طور پر بھی استعمال ہوسکتا ہے‘اس کے علاوہ مستوج سے بروغل تک سڑک کی توسیع کی صورت میں یہ شاہراہ واخان کی پٹی کے ذریعے وسطی ایشیا تک آسانی سے جاسکتی ہے جس کی بدولت پاکستان کا سینٹرل ایشیا سے براہ راست زمینی رابطہ قائم ہوگا‘یہ شاہراہ چترال سے شمال مشرق کی سمت چیو پل سے شروع ہوتی ہے۔ راستے میں درجنوں دیہات سے گزرتی ہے جن میں دنین، کاری، راغ، استانگول،موری لشٹ، مروئی، برنس، شاچار، گرین لشٹ، ریشن، زئیت، کوراغ، چرون، جنالی کوچ، بونی، آوی، پرواک، سرغوز، مستوج، شیداس، گشٹ، ہرچین، بالیم اور سور لاسپور شامل ہیں‘ مستوج سے دوسری سمت پرراستہ بروغل جاتا ہے جہاں سے صرف پچیس کلو میٹر واخان کی پٹی عبور کرنے کے بعد وسطی ایشیا تک پہنچا جاسکتا ہے‘ بجلی‘ گیس اور تیل کے ذخائر سے مالامال وسطی ایشیائی اسلامی ریاستوں سے نہایت سستے داموں گیس اور تیل حاصل کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے‘ چترال شندور روڈسات لاکھ کی آبادی،دو اضلاع اور ساڑھے چودہ ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی وادی کی تعمیر و ترقی کیلئے لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے‘ اس شاہراہ کی تعمیر سے نہ صرف پاکستان کو شاہراہ قراقرم کا متبادل راستہ مل جائے گا بلکہ یہاں کے پہاڑوں میں موجود معدنی دولت سے استفادہ کرکے ملک کو چند برسوں کے اندر ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیاجاسکتا ہے‘ قدرت نے اس خطے کو معدنی وسائل سے نہایت فیاضی سے نوازا ہے‘ یہاں سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں‘ یہاں اینٹی منی، زمرد، عقیق، لاجورد، جپسم، یاقوت، شیلائیٹ اور سنگ مرمر کے بھی وسیع ذخائر موجود ہیں جن سے آج تک استفادہ نہیں کیا جاسکا تاہم بدقسمتی سے ہمارے منصوبہ سازوں اور حکمرانوں کی ترجیحات میں پسماندہ علاقوں کی ترقی، عوام کا معیار زندگی بہتر بنانا اور اپنے وسائل پر انحصار کرنا کبھی نہیں رہا‘ نام نہاد جمہوری حکومتوں کے ادوار میں قومی اہمیت کے منصوبوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے‘چترال شندور روڈمنصوبے کا بیک جنبش قلم خاتمہ علاقے کی سات لاکھ آبادی کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہے۔ جس کا اعلیٰ سطح پر نوٹس لیکر منصوبے کو مکمل کرنے کے احکامات جاری کرنا ہی وقت کا تقاضا ہے۔