پشاور کہانی: پانی بچاؤ

اگر کسی شہر میں ’پینے کا پانی‘ ختم ہو جائے تو ایسی صورتحال کو اِصطلاحاً ’ڈے زیرو (Day Zero)‘ کہا جاتا ہے اور سال دوہزارپندرہ سے دوہزاراٹھارہ کے درمیان جنوبی افریقہ کے ساحلی شہر ’کیپ ٹاؤن کو چارسو برس کی شدید ترین ’خشک سالی‘ کا سامنا کرنا پڑا جس سے قریب پچاس لاکھ آبادی کے اِس شہر میں رہائشی پینے کے پانی کے ایک ایک قطرے کو ترسے اور دنیا نے دیکھا کہ کیپ ٹاؤن جو کہ جنوبی افریقہ کا قدیم ترین (مادر سٹی) اور عالمی سیاحت کا مرکز کہلاتا ہے کی رونقیں اور معمولات زندگی شدید متاثر ہوئیں۔ ’کیپ ٹاؤن‘ میں خشک سالی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے رونما ہوئیں اور اِس غیرمعمولی صورتحال سے نکلنے کیلئے ایک دوسرے کو الزام دینے کی بجائے شہریوں نے مثالی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا۔ غسل یا منہ ہاتھ دھونے کیلئے کم سے کم پانی کا استعمال‘ بیت الخلأ میں ضرورت پڑنے پر پانی بہانا‘ موٹر گاڑیاں نہ دھونا اور باغبانی کے لئے صاف پانی کے استعمال سے گریز جیسے ’اجتماعی اقدامات‘ کی وجہ سے ’ڈے زیرو‘ پر قابو پایا گیا چونکہ کیپ ٹاؤن میں ہر سال دس لاکھ سے زیادہ سیاح آتے ہیں تو سیاحوں کو بھی پانی بچت کی ترغیب دیتے ہوئے مہم چلائی گئی جس کا نعرہ تھا ”پانی بچاؤ‘ مقامی لوگوں کی طرح“ پانی بچت سے متعلق اقدامات کی کامیابی اور صبر و تحمل کے مظاہرے کی بدولت کیپ ٹاؤن ”ڈے زیرو“ سے نکلنے میں اِس لحاظ سے کسی حد تک کامیاب ہوا کہ پانی کی قلت برداشت کر لی گئی اور بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیا گیا‘ بیت الخلأ میں پانی کے استعمال کا عالمی معیار یہ ہے کہ ایک مرتبہ رفع حاجت کرنے کے بعد 1.6 لیٹر پانی بہایا جائے تاہم پانی بچت کیلئے نیا فلش سسٹم تیار کیا گیا ہے جس میں کم گنجائش والا ایسا واٹر ٹینک استعمال کیا جاتا ہے جو 1.60 لیٹر کی بجائے ایک مرتبہ میں ’1.28 لیٹر (یعنی 20 فیصد)‘ کم پانی اُنڈھیلتا ہے‘ پانی کی قلت کسی ایک شہر کا مسئلہ نہیں بلکہ گزشتہ بیس برس کے دوران دنیا بھر کے ”80 سے زیادہ میٹروپولیٹن شہروں کو خشک سالی اور پانی کے غیر پائیدار استعمال کی وجہ سے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے“ عالمی سطح پر پانی کے اِس ’بحران‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات بھی سامنے آئی کہ جن شہروں کے رہنے والے سماجی‘ معاشی اور سیاسی طور پر پسماندہ تھے وہاں بحران کی شدت زیادہ رہی اور سماجی و اقتصادی عدم مساوات کی وجہ سے سرمایہ داروں نے پانی کا غیرمحتاط و زیادہ استعمال جاری رکھا جبکہ کم 
مراعات یافتہ طبقات کو پینے کے لئے پانی بھی ناپ تول کر دیا گیا تاہم سماجی‘ معاشی اور سیاسی طور پر خوشحال (متحد) شہروں میں پانی کے ترسیلی نظام کی اصلاح اور پانی کا ضیاع روکنے جیسے اقدامات کی وجہ سے ’70 فیصد‘ تک بھی پانی کی بچت ہوئی۔ علاؤہ ازیں فیصلہ سازوں کی جانب سے ’نیو واٹر پروگرام‘ وضع کیا‘ جس میں پانی کی موجودہ اور مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملیاں تشکیل دی گئی۔ علاؤہ ازیں درآمد شدہ ایسے درخت اور پودے بھی کاٹے گئے جو زیرزمین پانی کے ذخائر میں کمی کا باعث بن رہے تھے۔ الغرض ’کیپ ٹاؤن‘ کی خشک سالی نے دنیا کو بیدار کیا کہ پانی کی شدید کمی اور بحرانی صورتحال سے نمٹنے کی بہترین صورت (حکمت عملی) یہی ہے کہ ’پانی کی بچت‘ کیا جائے اور ’کم سے کم پانی کے استعمال کو معمولات ِزندگی کا حصہ بنایا جائے۔ عزم چاہئے کہ ’پانی بچائیں: آج اور کل کیلئے‘پشاور میں پانی کی طلب ورسد کے درمیان فرق ہر دن بڑھ رہا ہے۔ زیرزمین پانی کے ذخیرے میں کمی کا سلسلہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب (خدانخواستہ) کیپ ٹاؤن کی طرح اہل پشاور کو بھی پینے کا پانی حاصل کرنے کیلئے قطاروں میں کھڑا ہونا پڑے! پشاور کے اطراف میں پانی کے وافر وسائل مختلف صورتوں میں موجود ہیں جن سے استفادہ کرنے کی بجائے پانی کی فراہمی کے لئے ’ٹیوب ویلوں پر انحصار کیا جا رہا ہے جو غیرمنطقی‘ غیرپائیدار اور مہنگی ترین حکمت عملی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ نومبر 2012ء میں پشاور کے لئے ’گریٹر واٹر سپلائی اسکیم‘ نامی حکمت عملی وضع کی گئی‘ جسے صوبائی حکومت نے سال 2014ء کے دوران منظور کیا لیکن اِس پر عمل درآمد نہ ہو سکا اور اِس وقت پشاور کی 92 یونین کونسلوں میں سے شہری علاقوں کی 42 یونین کونسلوں کو ’واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاور (WSSP) بذریعہ 537 ٹیوب ویل پانی فراہم کر رہا ہے۔ اِس کے علاؤہ 1400 دیگر ایسے ٹیوب ویل ہیں جو ’پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ 
ڈیپارٹمنٹ‘ یا کاروباری اداروں نے نجی طور پر قائم کر رکھے ہیں اور یوں زیرزمین پانی کا غیرمحتاط جاری ہے جسے قواعد و ضوابط ہونے کے باوجود روکا نہیں جا رہا‘ پشاور کیلئے ’گریٹر واٹر سپلائی اسکیم‘ نامی حکمت عملی پر پڑی گرد جھاڑنے اُور اِس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی اشد ضرورت ہے۔پشاور میں پانی کے استعمال پر نظر رکھنے کیلئے رواں ہفتے ایک اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے‘ واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی) نے اعلان کیا ہے کہ ’اسلامک ریلیف انٹرنیشنل‘ نامی امدادی تنظیم کے مالی تعاون سے ٹیوب ویلوں سے فراہم کئے جانے والے پانی کی مقدار معلوم کرنے کیلئے آلات (فلو میٹرز) کی تنصیب کا کام تیزی سے مکمل ہو رہا ہے‘ اِس تکنیکی پیشرفت سے زیر زمین پانی کی سطح اور طلب و رسد کے درمیان فرق کا کسی حد تک درست تعین ممکن ہوگا۔ اِن ’فلو میٹرز‘ سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ زیر زمین پانی کی سطح میں بڑھ رہی ہے یا اِس میں کم ہو رہی ہے۔ پہلے مرحلے میں ’فلو میٹرز‘ زون اے‘ سی اور ڈی کے 9 ٹیوب ویلوں پر نصب کی گئی جبکہ دیگر زونز اور باقی ماندہ ٹیوب ویلوں پر بھی فلو میٹرز نصب کئے جائیں گے۔ علاؤہ ازیں ’پلاننگ مانیٹرنگ ایویلیوایشن اینڈ رپورٹنگ ڈیپارٹمنٹ‘ کی زیرنگرانی ٹیوب ویلوں پر ایسے آلات بھی نصب کئے جا رہے ہیں جو پانی کے نمونے خود بخود اکٹھا کرنے اور اُن کے معیار کی جانچ کرتے ہیں جبکہ تجرباتی بنیادوں پر چھ ٹیوب ویلوں پر ’آٹومیٹک واٹر کوالٹی سنسر‘ نصب کئے گئے ہیں لیکن صرف ٹیوب ویلوں کی حد تک اقدامات و انتظامات کافی نہیں۔ غیرقانونی ٹیوب ویلوں کا خاتمہ اور پانی کا صنعتی پیمانے پر زیادہ استعمال کرنے والوں کو اِس کی تطہیر و بار بار استعمال کی ترغیب دینا ہوگی‘ پشاور میں زیرزمین صاف پانی کا ذخیرہ تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت ہر متعلقہ حکومتی ادارہ تسلیم کرتا ہے لیکن کسی کے پاس بھی سائنسی بنیادوں پر اعدادوشمار دستیاب نہیں۔ ایک عام شہری بطور صارف اور حکومتی ادارے متحد ہو کر پشاور کے زیرزمین پانی کی بچت میں اپنا اپنا ’کلیدی کردار‘ اَدا کر سکتے ہیں کیونکہ روئے زمین پر ہر جاندار کی زندگی کے لئے ضروری ہے۔ یہ پینے کے علاؤہ کھانا پکانے‘ صفائی ستھرائی‘ نہانے دھونے اور آبپاشی کے لئے استعمال ہوتا ہے اِسی لئے پانی کا تحفظ ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ پانی کی کمی یا قلت خشک سالی‘ بھوک و افلاس اور بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔