عدالت عظمیٰ کے باربار کہنے پر آخرکار سیاسی قیادت نے ہوش کے ناخن لینے کافیصلہ کرتے ہوئے سیاسی مکالمہ کاآغاز کردیاہے جو موجودہ حالات میں انتہائی خوش آئند اقدام ہے اگرچہ جمعیت علمائے اسلام نے اس عمل سے خود کو دور رکھاہواہے اور ا س کیلئے مولانافضل الرحمن کے پاس مضبوط دلائل بھی موجود ہیں تاہم مبصرین مکالمہ کے ذریعہ بند گلی سے نکلنے کے لیے پرامیددکھائی دیتے ہیں سپریم کورٹ نے کم سے کم تین اہم مواقع پر سیاسی قیادت کو موقع فراہم کیاکہ وہ الیکشن کی تاریخ کے حوالہ سے خود ہی اتفاق رائے پیدا کرے مگر اس جانب سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی کی تمام امید یں عدالت عظمیٰ سے وابستہ تھیں اور وہ سیاسی مسئلہ کاعدالتی حل ڈھونڈنے میں مصروف تھی دوسری طرف حکمران اتحاد عدالت کو دھمکانے میں مصروف تھا گویا فریقین کسی بھی صورت ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے رواد ار نہیں تھے مگر ایک طرف سے سپریم کورٹ کی کوششیں رنگ لانے لگیں تو دوسری طرف جماعت اسلامی نے بھی فریقین کے مابین جمی ہوئی برف پگھلانے میں اہم کردار اد ا کیا یہ امر بھی خوش آئند رہاہے کہ حکومتی اتحاد کے اندر سے بھی کشید گی ختم کرنے کے حوالہ سے آوازیں اٹھتی رہیں چار اپریل کی ایک رپورٹ کے مطابق نیشنل پریس کلب میں سول سوسائٹی کے گروپ اور ثالثوں سے ملاقات کے بعد حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل 6 جماعتوں نے سیاسی فورسز کے مل بیٹھنے پر زور دیا۔ملاقات میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم)، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی-مینگل)، نیشنل پارٹی‘ نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم)، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں تمام سیاسی جماعتوں اور گروپس نے بحرانوں پر قابو پانے کے لیے کثیرالجماعتی کانفرنس (ایم پی سی) کے انعقاد کی ضرورت پر زور دیا۔واضح رہے کہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، پاکستان بار کونسل،
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور دیگر تنظیموں پر مشتمل 100 سے زائد سول سوسائٹی تنظیموں کے ایک گروپ پر مشتمل ثالثوں کی جانب سے مختلف جماعتوں کو ایک میز پر بٹھانے اور سیاسی کشیدگی ختم کرنے کی کوشش میں مصروف تھا ملک میں سیاسی بحران کا آغاز پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات تحلیل کے بعد 90 روز کی آئینی حد کے اندر کروانے کے معاملے پر ہوا تھا۔مذکورہ گروپ کی جانب سے موجودہ بحرانوں پر قابو پانے کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے یہ دوسری کوشش تھی قبل ازیں مارچ میں گروپ نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سے ملاقات کی تھی اور ان پر زور دیا تھا کہ انتخابات پر ’وسیع تر قومی اتفاق رائے‘ کے لیے حریف جماعتوں کے ساتھ بیٹھیں اب جبکہ فریقین کے مابین باضابطہ مذاکرات شروع ہوچکے ہیں تو اس تناظر میں جماعت اسلامی اور اے این پی کی کل جماعتی کانفرنسوں کی اہمیت بھی کم ہوگئی ہے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی چندہفتے قبل پشاور میں اپیکس کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں سیاسی‘ مذہبی یا علاقائی اختلافات کو ایک طرف کر کے ایک قوم کی طرح خود کو ڈھالنا ہوگا۔ قومی یکجہتی کا یہ تصور وقت کا تقاضا ہے کیونکہ وطن عزیز جس طرح کے چیلنجز کا سامنا کررہا ہے‘ قومی ہم آہنگی کے جذبے کے بغیر ان سے نمٹنا ممکن نہیں۔ ان کاکہناتھاکہ ملک و قوم کی خاطر سیاسی اختلافات کم کرنے میں ہمارے رہنما پہلے ہی بہت دیر کر چکے ہیں‘ گزشتہ برس کی پہلی سہ ماہی سے کشیدگی کا جو ماحول بنا‘ ہر آنے والا دن اس کی شدت میں اضافہ کرتا چلا
گیا ہے جمہوری معاشروں میں تبدیلی اقتدار انہونی بات نہیں‘مگر ہمارے ہاں اس پر سیاسی کشیدگی کو جتناطول دیا گیا اس کے اثرات بہت واضح ہیں صورتحال کی ذمہ داری دونوں فریقوں پر برابر عائد ہوتی ہے کیونکہ دونوں طرف سے ہی غیر لچک دار رویہ اختیار کیاگیا اگر حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اس دوران اپنی ذمہ داریاں صحیح طرح ادا کی ہوتیں اور قوم کے فیصلے سڑکوں کے بجائے پارلیمان میں زیرِ بحث آرہے ہوتے تو یقینا صورتحال بہت بہتر ہو سکتی تھی‘ اس سیاسی بے یقینی کی وجہ سے ملک کا عالمی تشخص بھی شدید متاثر ہوا ہے‘ جس کے منفی اثرات معیشت پر بھی غیر معمولی ہیں‘بینک دولت پاکستان کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی ششماہی (جولائی تا دسمبر 2022ء) کے دوران ایک سال پہلے کے اسی دورانیے کی نسبت غیر ملکی سرمایہ کاری میں 58 فیصد کمی آئی ہے۔ سرمایہ کاری میں اس غیر معمولی گراوٹ کے بیرونی عوامل اپنی جگہ مگر اس میں داخلی صورتحال کا جو بہت بڑا ہاتھ ہے‘ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ملک میں کاروبار کی لاگت‘ مہنگی توانائی یا دیگر صورتوں کے باوجود امکانی حد تک پاکستان جیسی ابھرتی ہوئی مارکیٹ میں سرمایہ کاری میں اس قدر کمی کا امکان نہ تھا اگر ملک میں سیاسی حالات متوازن ہوتے؛چنانچہ سیاسی توازن اور ہم آہنگی ہی ہمارے لیے آگے کا راستہ ہے اوطن عزیز کو جن بڑے مسائل نے گھیر رکھا ہے‘ ان کے حل کی صورت سیاسی یکجہتی کے بغیر ممکن نہیں۔ بلا شبہ قومی سطح کے سیاسی مکالمے کی ضرورت ہے۔ معاشی طور پر نازک کنارے پر کھڑے اور سکیورٹی کے پیچیدہ مسائل سے نبرد آزما ملک کو اس بحران سے نکالنے کیلئے کسی کے پاس زیادہ وقت نہیں‘سیاسی غیر یقینی نے پہلے سے ہی مشکلات کا شکار معیشت پر مزید تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں تاہم سیاسی جماعتیں اس اتفاق کے باوجود سیاسی فوائد کے حصول کے لیے مختلف سمت میں سفر کررہی ہیں اور اس کی قیمت ملک کو معاشی عدم استحکام کی صورت میں ادا کرنی پڑرہی ہے ضرور ت اس امرکی ہے کہ سیاسی مکالمہ کے ذریعہ میثاق سیاست اور میثاق معیشت کیلئے راہ نکالی جائے۔