پاکستان کی معیشت اور حکومت کی آمدنی و اخراجات کے بارے میں کم سے کم معلومات بھی باعث تشویش ہوتی ہیں‘ اِس لئے لاعلمی ہی بہتر یعنی باعث سکون ہے۔ ایک عرصے سے آمدنی کے مقابلے اخراجات زیادہ ہونے کے باعث ”بجٹ غیر متوازن“ ہے یعنی حکومت اپنی کمائی سے زیادہ خرچ کر رہی ہے۔ اِس صورتحال میں علاج تجویز یہ کیا گیا ہے کہ خزانے پر ’بوجھ‘ سرکاری ادارے مل بانٹ کر کم کریں۔ تجویز یہ بھی سامنے آئی ہے کہ مراعات یافتہ طبقے کو معاشی مشکل کی اِس گھڑی میں اپنا زیادہ حصہ ڈالنا چاہئے تاہم پاکستان کے معاشی مسائل ملک کو درپیش تن تنہا مشکل (واحد چیلنج) نہیں ہیں اور معیشت کی طرح ملک میں تعلیم کی حالت بھی یکساں تشویشناک ہے۔ اِس حقیقت سے اگرچہ انکار تو نہیں کیا جاتا کہ ’تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں لیکن اِس کے باوجود بھی اگر تعلیم کے حوالے سے اعدادوشمار اُمید افزأ نہیں اور ملکی سطح پر بچوں کی اکثریت ’معیاری تعلیم‘ تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہے تو اِس لمحہئ فکریہ پر ٹھہر کر غور ہونا چاہئے۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یونیسکو‘ کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں سکول نہ جانے والے بچوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں پانچ کروڑ سولہ لاکھ ایسے بچوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو تعلیم حاصل نہیں کر رہے اور اِس کی وجہ غربت اورتعلیمی شعبے میں سہولیات و بنیادی ڈھانچے کی کمی سمیت مختلف عوامل شامل ہیں۔ معاشی مشکلات کی وجہ سے ’تعلیم‘ بہت سے خاندانوں کے لئے ترجیح نہیں رہی اور یہ وہ خاندان ہیں جو اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے‘ خاص طور پر لڑکیاں جنہیں گھریلو ملازمت یا کم عمری میں شادی کرنے کے لئے گھر پر ہی رکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں تعلیمی سہولیات کی بھی کمی ہے‘ بہت سے سکولوں میں بیت الخلا‘ پینے کے صاف پانی اور مناسب تدریسی عملے جیسی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ نصاب تعلیم فرسودہ ہے اور طلبہ کو عصری علوم سے لیس کر کے عالمی چیلنجوں کے لئے تیار نہیں کیا جاتا۔ رٹے رٹائے مضامین اور نظریات کی وجہ سے سکول چھوڑنے والے طلبہ کی شرح بہت زیادہ ہے‘ بہت سے طالب علم اپنی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ اِن اور دیگر چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے حکومت نے قانون بعنوان ’تعلیم کا حق‘ اور قومی تعلیمی پالیسی سمیت متعدد اقدامات متعارف کئے ہیں تاہم مالی وسائل کی کمی اور ناقص عمل درآمد کی وجہ سے یہ اقدامات خاطر خواہ اثر نہیں دکھا سکے۔ پاکستان میں تعلیمی نظام کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘ جس میں معیاری تعلیم تک رسائی بڑھانے اور نصاب کو بہتر بنانے پر توجہ دی جانی چاہئے۔ تعلیم تک رسائی کو بہتر بنانے کا ایک طریقہ بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری ہے۔ آبادی کے تناسب سے مزید سکولوں کی ضرورت ہے‘ خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں تعلیم تک رسائی محدود ہے۔ موجودہ سکولوں کو بیت الخلأ‘ پینے کے صاف پانی اور بجلی جیسی سہولیات کے ساتھ اپ گریڈ کیا جانا چاہئے۔ حکومت سکولوں سے دور رہنے والے طلبہ کو نقل و حمل کی سہولیات بھی فراہم کرسکتی ہے اور اِس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ وہ فاصلے کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہ ہوں۔ تعلیم تک رسائی بہتر بنانے کا ایک اور طریقہ غربت کے مسئلے کو حل کرنا ہے۔ حکومت اِن خاندانوں کی مدد کے لئے پالیسیاں متعارف کراسکتی ہے جو اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر‘ یہ ایسے غریب خاندانوں کی مالی مدد کر سکتی ہے جو اپنے بچوں کو صرف اِس وجہ سے سکول نہیں بھیجتے کیوں کہ وہ کمائی کرنے والے ہاتھ تصور ہوتے ہیں۔ جن علاقوں میں سرکاری سکول نہیں وہاں نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے بھی درس و تدریس کا عمل وسیع کیا جا سکتا ہے اور حکومت تعلیمی اخراجات کی لاگت پر سبسڈی دے سکتی ہے۔ ’تعلیمی سبسڈی‘ دینے سے زیادہ سے بچے تعلیم تک رسائی حاصل کرسکیں گے جس سے سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں کمی آئے گی‘ جو عالمی سطح پر ملکی ساکھ کو متاثر کرنے کا باعث بن رہی ہے۔پاکستان میں تعلیم کا معیار بہتر بنانا ضروری ہے۔ نصاب کو جدید مضامین جیسا کہ سائنس و ٹیکنالوجی‘ انجینئرنگ اور ریاضی (ایس ٹی ای ایم) کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا کر لیا جاتا ہے تو اِس سے طلبہ عالمی چیلنجوں کے لئے تیار ہونے کے ساتھ عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے لئے بھی تیار ہوں گے۔ تدریسی عملے کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لئے تربیت یافتہ اور مہارتوں سے لیس کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اِن اقدامات کے علاوہ‘ قومی سطح پر تعلیم کی حالت بہتر بنانے کے لئے نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری بھی ضروری ہے۔ معیاری تعلیم کی فراہمی میں نجی شعبے کے اہم کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور حکومت تعلیم میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کو ٹیکس مراعات دے کر اُن کے وسائل اور تجربے سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ نجی شعبے کو بھی سکولوں کی تعمیر اور ضرورت مند طلبہ کو وظائف فراہم کرنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز ہی واحد مسئلہ نہیں۔ پاکستان میں تعلیم کی حالت بھی توجہ طلب ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری‘ غربت کے مسئلے کے حل اور تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے جیسے اقدامات پر توجہ دینی چاہئے۔ قابل ذکر ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 70 ہزار ایسے بچوں کی نشاندہی ہوئی ہے جو سکولوں کو نہیں جا رہے اور اِن بچوں کو جون (دوہزارتیئس) کے اختتام سے پہلے سکولوں میں داخل کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے جو درحقیقت ’ہر ممکنہ کوشش‘ ہے اور اپنے بچوں کے لئے تعلیم یا روزگار میں سے کسی ایک کا حتمی انتخاب کرنا والدین ہی کی رضامندی سے مشروط ہے۔ قومی اسمبلی ایوان کو بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد کی حدود میں دیہی علاقوں کے بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لئے ’سکولز آن وہیلز‘ نامی حکمت عملی کے تحت ’بسوں‘ کو موبائل سکولوں میں تبدیل کیا جائے گا جن میں بیت الخلأ سمیت تمام بنیادی سہولیات میسر ہوں گی تاہم یہ پائیدار اور کم خرچ حل نہیں۔ فی الوقت عالمی بینک نے 30 بسیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ علاؤہ ازیں فاصلاتی تعلیم پر توجہ مرکوز کرنے اور ’ٹیلی سکولز سسٹم‘ بھی شروع کیا جا رہا ہے جس کے لئے حکومت کو برطانیہ سے مالی و تکنیکی تعاون حاصل ہے۔ ماضی میں بھی غیرملکی مالی و تکنیکی امداد سے شعبہئ تعلیم میں اصلاحات متعارف کروائی جاتی رہی ہیں‘ جن کی روانی اُس وقت تک رہتی ہے جب تک غیرملکی امداد جاری رہتی ہے۔ شعبہئ تعلیم کی بہتری کے لئے مقامی وسائل اور مقامی حل پر مبنی حکمت عملیاں وضع کرنے سے مثبت نتائج حاصل ہونے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔