پہلی ڈیجیٹل خانہ و مردم شماری

پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل خانہ و مردم شماری یکم مارچ دوہزار تیئس سے جاری ہے‘ جس میں پندرہ مئی تک توسیع کر دی گئی ہے تاہم اِس عمل میں کچھ سنجیدہ نوعیت کی تکنیکی خامیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ قومی سطح پر کی گئی اِس سیدھی سادی گنتی کی مشق کے دوران مالی وسائل کی کمی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں باوجود خواہش بھی ایسا نہیں ہو سکا  کہ مردم شماری سب کوقابل قبول ہو اور یہ غیر متنازعہ بھی ہو۔ تاہم مردم شماری کو غیرمتنازع بنانے کے لئے خاطرخواہ عملی کوششیں اور قومی سطح پر تبادلہئ خیال جیسے اقدامات دیکھنے میں کم ہی آئے جو ’مردم شماری‘ کے نتائج جامع بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے تھے۔ فی الوقت سب سے زیادہ (پُر زور) اعتراض جو کہ بنیادی اعتراض بھی ہے ماضی کی طرح کراچی ہی سے آیا ہے جہاں مردم شماری کے ابتدائی‘ غیرسرکاری اور غیرحتمی نتائج کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم‘ پی) جو کہ حکومت کی ایک اہم اتحادی جماعت ہے‘ کا دعویٰ ہے کہ ”کراچی کے 80 لاکھ لوگ شمار سے رہ گئے ہیں! ایک ایسے وقت میں جبکہ مردم شماری کا عمل ہی مکمل نہیں ہو پا رہا تو آبادی کے تناسب سے نظرثانی شدہ انتخابی فہرستوں کی تشکیل و اشاعت کا کام کیسے بروقت مکمل ہوگا جو ’عام انتخابات‘ کا انعقاد کے لئے ضروری ہے۔ صورتحال کا تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ مردم شماری پر تحفظات کے سیاسی مضمرات بھی ہوتے ہیں۔ آبادی‘ تجارت‘ صنعتوں‘ روزگار کے مواقعوں اور قومی آمدنی میں حصہ داری کے لحاظ سے ’کراچی‘ انتہائی اہم شہر ہے اور اُمید یہی تھی کہ ماضی میں خانہ و مردم شماری کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اِس مرتبہ اُن ’غلطیوں‘ کو نہیں دہرایا جائے گا۔ بہرکیف ایک انتہائی مہنگی و مشکل مشق کا مستقبل خطرے سے دوچار نظر آ رہا ہے جبکہ قومی مفاد یہ ہے کہ تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ کراچی کی طرح ضلع پشاور کے ایسے کئی شہری و دیہی علاقے ہیں جہاں خانہ و مردم شماری نہیں کی گئی بالخصوص ایسے مکانات جن میں ایک سے زیادہ خاندان آباد ہیں اور وہ مکان کے الگ الگ حصوں میں بطور کرایہ دار رہتے ہیں تو خانہ و مردم شماری میں زیادہ محنت نہیں کی گئی لیکن جس انداز میں کراچی کی ”بھرپور سیاسی نمائندگی“ ہو رہی ہے اور ماضی کی طرح اِس مرتبہ بھی کراچی کے مفادات کے تحفظ کے لئے مختلف النظریات سیاسی جماعتوں کا مؤقف (مردم شماری سے متعلق) ایک جیسا ہے تو ضرورت اپنی جگہ ہے کہ پشاور کے مفادات کی عینک لگا کر بھی مردم شماری کا جائزہ لیا جائے۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی‘ (قومی) ترقی و خصوصی اقدامات  احسن اقبال نے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پندرہ مئی تک اُن علاقوں میں مردم شماری کی تصدیق (فیلڈ ویریفکیشن جسے تکنیکی طور پر کوریج بھی کہا جاتا ہے) مکمل کر لیں اور جہاں جہاں آبادی میں اضافے ہوا ہے یا مردم شماری میں بے قاعدگیاں ہیں‘ اُنہیں حل کر لیا جائے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری میں نہ صرف یہ کہ کئی لوگ شمار سے رہ گئے ہیں بلکہ ’ڈیجیٹل سسٹم‘ نے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل
 انٹلی جنس) کے ذریعے ’اوور کاؤنٹنگ‘ کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اصولاً اور حسب حکمت عملی خانہ و مردم شماری کا عمل آخری تاریخ (چار اپریل) سے پہلے مکمل ہو جانا چاہئے تھا لیکن اِس عمل کی مدت پانچویں بار بڑھا کر اب پندرہ مئی کر دی گئی ہے اور جس قسم کے اعتراضات و تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے اُس سے ممکن نہیں کہ یہ پندرہ مئی تک بھی یہ تنازع حل ہو سکے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی آبادی میں صرف 0.4 فیصد کے تناسب سے اضافہ دکھایا گیا ہے جبکہ آبادی میں سالانہ اضافے یعنی شرح نمو (1.4 فیصد کے تناسب سے) کراچی کی آبادی ایک کروڑ 74 لاکھ سے زیادہ ہونی چاہئے تھی۔ مردم شماری میں سندھ کی مجموعی آبادی میں 64 لاکھ کا اضافہ ظاہر کیا گیا ہے اور یہ نتیجہ بھی منطقی طور پر درست نہیں ہے۔ اِسی طرح کے متنازعہ اعدادوشمار بلوچستان اور سندھ سے بھی سامنے آئے ہیں۔ بلوچستان کے چند اضلاع کی آبادی سالانہ شرح نمو کے تناسب سے کم جبکہ چند کی زیادہ دکھائی گئی ہے! توجہ طلب ہے کہ ملک کی
 پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے ابتدائی نتائج کو جماعت اسلامی‘ پاکستان تحریک انصاف‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کیا ہے جس سے عوام میں بے چینی اور شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ کس طرح ممکن ہے کہ کم یا زیادہ گنتی (اوور یا انڈر کاؤنٹنگ) ہو جبکہ قومی شناختی کارڈ کے بغیر شمار ممکن ہی نہیں تھا!؟ پاکستان کے لئے مردم شماری انتہائی اہم و ضروری عمل ہے جو سیاست یا مخالفت و حمایت سے بالاتر ہونا چاہئے۔ اِسی مردم شماری کی بنیاد پر قومی وسائل کی تقسیم اور عوام کی ترقی کا خاکہ (لائحہ عمل) تیار کیا جاتا ہے اور یہی انتخابات میں کسی سیاسی جماعت کے لئے عوام کی نمائندگی معلوم کرنے کا پیمانہ بھی ہے۔ اصولاً مردم شماری کے موقع پر زیادہ سے زیادہ تفصیلات جمع کی جا سکتی تھیں لیکن جو بنیادی نوعیت کی معلومات جمع کی گئیں ہیں اُن کا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔ مردم شماری ’بیس لائن (بنیاد)‘ ہوتی ہے اور اِسی کے نتائج مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے قومی امور بالخصوص فلاح و بہبود اور وسائل کو ترقی دی جاتی ہے۔ صحت و تعلیم کی سہولیات کا جائزہ اور اِن کی توسیع بھی مردم شماری ہی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور طے کیا جاتا ہے کہ سرکاری وسائل کہاں اور کن کن شعبوں میں ترجیحی بنیادوں پر خرچ کئے جائیں۔ اِسی طرح وفاق سے صوبوں کو دیئے جانے والے مالی وسائل (این ایف سی ایوارڈ) کا دارومدار بھی ’آبادی کی گنتی‘ پر ہی ہوتا ہے جو ایک سیدھا سادا عمل ہے لیکن اِسے اُلٹا اور پیچیدہ بنا دیا گیا ہے!گزشتہ مردم شماری کے بعد‘ حتمی نتیجہ جاری ہونے میں بھی کئی ماہ کی تاخیر ہوئی تھی اور ایک مرتبہ پھر وہی ناخوشگوار تجربہ دہرایا گیا ہے! جس سے آبادی کا شمار نہیں بلکہ ایک نئی آبادی بصورت تنازعات اور خدشات نے جنم لیا ہے۔ مردم شماری صرف لوگوں کی گنتی ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ کسی صوبے حقوق کا معاملہ بھی ہے۔ یہ کسی صوبے میں غربت‘ تعلیم و صحت‘ رہائش کی سہولیات اور بہبود آبادی میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا نتیجہ اور اِس مد میں مزید سرمایہ کاری کا بنیادی ذریعہ بھی ہوتا ہے لیکن افسوس کہ مردم شماری قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی بجائے اختلافات میں اضافے کا باعث بنی ہوئی ہے اور خانہ و مردم شماری کا یہ ’نتیجہ‘ کسی بھی طرح قومی مفاد میں نہیں۔