یہ غالبا ً ستمبر 2020کی بات ہے میجر عامر کے ساتھ اس وقت کے وزیر اعلیٰ محمود خان کے ساتھ طے شد ہ ملاقات کے لئے پہنچے ہمارے سامنے تو ان کی پہلی ملاقات تھی مگر دونوں کی بے تکلفی دیکھ کریہ اندازہ ہوا کہ دونوں کی ایک دوسرے کے ساتھ قریبی رفاقت کاسلسلہ پہلے سے جاری ہے ملاقات میں تفصیل سے باتیں ہوئیں تاہم ایک معاملہ جو ا س وقت میجرعامرنے وزیراعلیٰ کے سامنے اٹھایا تھاوہ صوابی میں ایک قبضہ گروپ کاتھامیجرعامر نے گروپ کے حوالہ سے جو تفصیلات وزیر اعلیٰ کو بتائیں اس کے جواب میں محمود خان نے فوری طورپر اس وقت کے ڈی آئی جی مردان کو فون کرکے جامع تحقیقات اور ان کی روشنی میں فوری کاروائی کے احکامات جاری کیے تھے جس کے بعد اس وقت کے ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی بنائی گئی جس کی رپورٹ میں مذکورہ قبضہ گروپ کی نشاندہی کرتے ہوئے واضح کیاگیاکہ سینکڑوں کنال سرکاری اراضی بھی اس کے قبضہ میں ہے مگر حیرت اور افسوس کامقام ہے کہ اس رپورٹ کو اس طریقے سے سردخانے میں ڈالا گیا کہ آج تک اس پر کوئی عملدر آمدنہ ہوسکا اور جب قانون خاموش ہوتاہے توپھرجرم بولتاہے چنانچہ قبضہ گروپ کی کاروائیاں جاری رہیں اور اب نوبت یہا ں تک پہنچ گئی ہے کہ گذشتہ دنوں اسی قبضہ گروپ کی مدعیت میں خودمیجر عامر کے خلاف مقدمہ درج ہوگیاہے واقعات کے مطابق ارشد نامی کوئی شخص مبینہ طورپر اس گروپ کاسرغنہ بناہواہے جس نے پھر مزید دہشت پھیلانے کے لئے بندوق برداروں کاجتھہ بنارکھاہے اس حوالہ سے اس سے قبل بھی خبریں آتی رہی ہیں اور اس قبضہ گروپ کے خلاف کئی مقدمات بھی درج ہیں گذشتہ دنوں اس گروپ نے میجر عامر کے زمینداروں پر پے درپے کئی حملے کیے آخر ی حملہ اس وقت کیاگیا جب میجر عامر کے زمینداروں کے نوعمر لڑکے گندم کی کٹائی میں مصروف تھے اس موقع پر گروپ کی طرف سے اس قدر اندھادھند فائرنگ کی گئی کہ اپنے پرائے کافرق روا نہ رکھا جاسکابتایاجاتاہے کہ کمانڈو نامی کارندہ بھی مبینہ طورپر اپنے لوگوں ہی کی فائرنگ کی زد میں آنے سے ماراگیا اس سے قبل جب میجر عامر کی زمینوں پر حملے ہوئے تو اس گروپ کے خلاف پرچے درج کرائے گئے مگر ہربار ضمانت کے ذریعہ نامزد کردہ لوگ صاف بچ جاتے جس کے بعد اب حالیہ واقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میجرعامر کو دفعہ 109کے تحت قتل پراکسانے جیسے الزام کے تحت مقدمہ درج کرلیاگیاہے جس میں کہاگیاہے کہ یہ قتل میجرعامر کے ایماء پرہواہے دفعہ 109کااستعمال ہمارے ہاں اکثر وپیشتر مخالفین کو پھنسانے کے لیے استعمال کیاجاتاہے اس کی سب سے بڑی اور شرمناک مثا ل سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکی ہے جن کو اس وقت کے آمر مطلق نے ایک مقدمہ قتل میں اسی دفعہ کے تحت نامزد کیاتھا اور معاملہ کو اس قدر اچھالاگیا کہ اس پورے مقدمہ میں صرف انہی کو پھانسی کی سزا ملی اسی طرح حاجی غلام احمد بلور بھی اس دفعہ کے شکار بن چکے ہیں حال میں معروف قانون دان لطیف آفریدی مرحوم بھی اسی دفعہ کے تحت ملزم نامزد کیے گئے تھے بعد میں وہ ان تمام الزامات سے بری ہوگئے مگر اس دوران ان کو جوذہنی کوفت اٹھانی پڑی تھی اس کی تلافی نہ کی جاسکی اس دفعہ کااستعمال یا توفوری اورشدید اشتعال اورانتقام کی وجہ سے کیاجاتاہے جس سے نامزد شخص کو شدید ذہنی ا ذیت کاسامنا کرناپڑتاہے دوسری صورت میں اس کااستعمال اپنے مخالف کے استحصال کے لیے کیاجاتاہے ہمارے ہاں یہ طریقہ عام ہے کہ قبضہ گروپ،ٹوپک مار قسم کے لوگ اپنے ہی کسی کارندے کو قتل کرکے ا س کادعویٰ مخالف پر کردیتے ہیں تاکہ اس کو ذہنی ٹارچر کیاجاسکے جہاں تک میجر عامر کاتعلق ہے تو ہمارا ان کے ساتھ پرانا تعلق چلا آرہاہے ان کی زمینوں پر ہمارا آناجانارہتاہے بلاشبہ انہوں نے انتہائی بنجر زمینوں کو مسلسل محنت اوراپنی ذاتی دلچسپی کی بدولت گل وگلزار بنا دیاہے تین چارہزار کنال بنجر اراضی کو قابل کاشت بنانا کوئی آسان اور معمولی کام نہیں حکومتیں اس کے لیے خصوصی پراجیکٹس لاتی ہیں اور اربوں روپے کابجٹ مختص کرتی ہیں مگر یہ کام تن تنہا میجر عامر نے کرکے دکھایاہے جہاں پر ان کی زمینیں اورفارم ہاؤ س ہے یہ علاقہ کسی زمانے میں منشیات اور اسلحہ سمگلروں کامصروف ترین روٹ ہوا کرتاتھا یہاں جرائم پیشہ افراد کے ا ڈے آباد تھے یہ نو گوایریا تھا مگر میجر عامر کے آنے سے یہاں نہ صرف زمینیں آباد ہوتی چلی گئیں بلکہ یہ علاقہ امن کاگہوارہ بنتا چلا گیا جوظاہرہے کہ بہت سے لوگوں سے ہضم نہیں ہورہا اس میں یہ قبضہ گروپ بھی شامل ہے جس کو پولیس کی نچلی سطح پر موجود کالی بھیڑیں ہمیشہ تحفظ اور مددفراہم کرتی رہی ہیں حیرت ہوتی ہے کہ جن لوگوں کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے ان کے کہنے پر خود میجر عامر کے خلاف قتل کے مقدمے درج ہورہے ہیں اس سے زیادہ قانون کابہیمانہ قتل اورکیاہوگا قومی ہیرو بھی اگر محفوظ نہیں اگر وہ سچا سپاہی بھی محفوظ نہیں کہ جس کی آخری اے سی آر میں انہیں قومی ہیرو اور قومی اثاثہ قرار دیا گیاتھا جن کی کوششوں سے کتنے ہی ادیبوں اور شاعروں کامفت علاج ممکن بنایاگیا تو پھر اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ دیگرشرفاء کے خلاف کیاکچھ نہیں کیاجاسکتا اس معاملہ میں ضرورت اس امر کی ہے کہ جامع تحقیقات کرائی جائیں تاکہ دودھ کادودھ اورپانی کاپانی ہوسکے کیونکہ میجر عامر کے متعلق تو اتناہمیں خودمعلوم ہے کہ پچھلے کئی ہفتوں سے وہ ا سلام آباد کے مختلف ہسپتالوں میں زیرعلاج رہے ہیں خود ہماری بھی کئی ہفتوں سے اسی وجہ سے ملاقات نہیں ہوسکی کہ ان کی طبعیت مسلسل خراب رہی ہے بہتر ہوگا کہ اب پولیس اس دفعہ کااستحصالانہ اور بلیک ملینگ کے لیے استعمال بند کردے جس کسی نے بھی اس دفعہ کااستعمال کرناہوتو پہلے پولیس خود تو اس متعلقہ فرد کو بلا کر تحقیقات کرکے حقائق معلوم کرنے کی کوشش کرے تاکہ کوئی بھی اس دفعہ کامکروہ استعمال نہ کرسکے کم از کم موجودہ کیس میں ہماری درخواست ہے کہ چیف جسٹس پشاورہائی کورٹ اس معاملہ کا نوٹس لے کر تحقیقات کاحکم صادرفرمائیں اور پولیس کے لئے بھی کوئی گائیڈ لائنز جاری کی جائیں کہ دفعہ 109کاغلط استعمال بند ہوسکے امیدرکھی جانی چاہئے کہ عدلیہ اورپولیس کے اعلیٰ حکام اس کیس کو مثال بنانے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے تاکہ شرفاء کی پگڑیاں اُچھالنے والوں کو نہ صرف روکاجاسکے بلکہ اصل مجرمان کو سزا بھی دلائی جاسکے قانون کے قتل کو اب ہرصورت روکناہوگا۔