پہلا نکتہ: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس ادا کرنے والے فعال صارفین (ایکٹو ٹیکس پیئرز) کی فہرست جاری کی ہے جس کے مطابق ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں ایک سال کے دوران ’30 ہزار صارفین‘ کا اضافہ ہوا ہے اور اِس اضافے کے ساتھ پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی کل تعداد 35 لاکھ 8 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ ماہئ اپریل 2023ء کے اختتام سے قبل ’35 لاکھ 5 ہزار سے زائد‘ افراد ٹیکس ادا کر رہے تھے۔ قبل ازیں ماہئ مارچ 2023ء میں ’ایف بی آر‘ نے فعال ٹیکس دہندگان کی ایک فہرست جاری کی تھی جس کے مطابق 32 لاکھ 10 ہزار سے زیادہ لوگ فعال ٹیکس دہندگان ہیں۔ یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ ضروری نہیں کہ ہر ٹیکس دینے والا قومی خزانے میں لازماً کچھ نہ کچھ جمع بھی کروا رہا بلکہ ’ٹیکس دہندگان‘ کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جن کی آمدنی قابل ٹیکس نہیں ہوتی لیکن وہ ’ٹیکس دہندہ (فائلر)‘ بن جاتے ہیں اور قانون بھی یہی کہتا ہے کہ ہر پاکستانی چاہے اُس کی آمدنی ٹیکس عائد ہونے کی شرح سے کم ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ سالانہ بنیادوں پر‘ اپنی آمدنی و اثاثہ جات کی تفصیلات سے ’ایف بی آر‘ کو مطلع کرنے کا پابند ہے۔دوسرا نکتہ: ’ایف بی آر‘ نے اعلان کیا ہے کہ تنخواہ دار طبقہ‘ کاروباری طبقہ‘ تاجر و دکاندار‘ تنظیمیں اور منظم کاروبار کرنے والے (کمپنیاں) ’30 ستمبر‘ تک سال گزشتہ (دوہزاربائیس کا) واجب الادأ ٹیکس جمع کروائیں لیکن کاروباری طبقات‘ اور کمپنیاں عموماً ’31 دسمبر‘ تک ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ ٹیکس ادائیگی میں اِس عمومی تاخیر کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے جرمانہ (سرچارج) بھی مقرر ہے جس کا اطلاق ’پندرہ دسمبر‘ یا اِس کے بعد ٹیکس ادا کرنے والوں پر ہوتا ہے۔تیسرا نکتہ: فنانس ایکٹ 2018ء کی ایک شق میں ترمیم کرتے ہوئے ایسے فعال ٹیکس دہندگان (ایکٹو ٹیکس پیئرز) کے نام سالانہ فہرست میں شامل نہیں کئے جاتے جو (کسی بھی وجہ سے) مقررہ تاریخ کے بعد اپنا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس کی ادائیگی قومی ذمہ داری ہے اور اِس سے انکار یا تاخیر ’جرم‘ ہے تاہم پاکستان میں ٹیکس کی بروقت ادائیگی نہ کرناایک معمول بن گیا ہے۔
چوتھا نکتہ: پاکستان کے فعال ٹیکس دہندگان کی فہرست میں ’1 لاکھ 55 ہزار 27 خواتین‘ کے نام بھی شامل ہیں۔ یہ خواتین مختلف قسم کے چھوٹے بڑے کاروبار کرتی ہیں یا ملازمت پیشہ ہیں۔ خوش آئند ہے ٹیکس ادا کرنے والی خواتین میں 1 لاکھ 24 ہزار 735 ایسی خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے انفرادی حیثیت میں ٹیکس ادا کیا ہے اُور یہ پاکستان کی تاریخ میں خواتین ٹیکس دہندگان کی بلند ترین تعداد ہے جس سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ خواتین کس طرح ملکی معیشت میں مردوں کے ’شانہ بشانہ‘ کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔پانچواں نکتہ: خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت ’پشاور‘ میں تاجروں کی نمائندہ تنظیم ’تاجر اِتحاد‘ نے کاروبار کو دستاویزی بنانے کے لئے ’پوائنٹ آف سیلز (POP)‘ لگانے کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ’بنیادی‘ بات یہ ہے کہ ٹیکس دہی اور ٹیکس وصولی کا نظام و اِنتظام اُس وقت تک مکمل (جامع) نہیں ہو سکتا جب تک خریدوفروخت دستاویزی نہ ہو۔اِس مرحلہ فکر پر اُن تین اَمور (1: قابل ٹیکس آمدنی کی مقررہ حد‘ 2: ٹیکس کی شرح اور ٹیکس ادائیگی اور وصولی کے نظام) کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ جب ہر خاص و عام سے (بنا آمدنی کی تفریق) مختلف صورتوں سے ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے اور ایک عام آدمی جس کی آمدنی مقررہ قابل ٹیکس آمدنی سے کم ہے لیکن وہ ماچس کی ڈبی سے لیکر بجلی‘ گیس‘ ٹیلی فون حتیٰ کہ موبائل فون کے ہر ’ریچارج‘ پر بھی ٹیکس ادا کر رہا ہے تو اِس طرح کی ’ٹیکسیشن‘ کبھی بھی نہ تو پائیدار قومی آمدنی کا ذریعہ ہو گی اور نہ ہی اِس کے بارے میں اختلافات و تحفظات میں ازخود کمی آئے گی۔ پاکستان کا ٹیکس نظام کیا ہے اور پاکستان کا ٹیکس نظام کیا ہونا چاہئے اِس حوالے سے متعلقہ طبقات (اسٹیک ہولڈرز) کے ساتھ بات چیت (ڈائیلاگ) کرنا ہی مسئلے کا ’پائیدار‘ حل ثابت ہوگا۔ٹیکس وصولی سے متعلق یا کسی بھی دوسرے حکومتی اقدام کے حوالے سے ہر کسی کو اظہار رائے کا حق حاصل ہے لیکن یہ اظہار رائے تعمیری (مثبت) انداز میں ہونا چاہئے۔