معروف یونانی فلسفی اَرسطو (322-384 قبل مسیح) نے کہا تھا کہ ”اپنے آپ کو جاننا تمام تر حکمتوں کا نکتہئ آغاز ہے“ اِس طرح کے خیالات تقریباً سبھی فلسفیوں کے ہاں ملتے ہیں۔ حالیہ دور میں معروف مصنف ’آرتھر گورڈن (1912-2002ء)‘ کے اِس خیال سے رہنمائی لی جا سکتی ہے جنہوں نے لکھا کہ جب ہم اپنی زندگی کے بارے میں سوچتے ہیں تو ایک موقع ایسا بھی آتا ہے جب ہمیں یہ معمولات کا مجموعہ اور ہموار نظر آتی ہے‘ زندگی ہونے کے باوجود اِس میں زندگی والا جوش و خروش محسوس نہیں ہوتا“ آرتھر گورڈن کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ جب وہ علیل ہوئے تو اُنہیں ڈاکٹر (معالج) نے دوا دینے کی بجائے تجویز کیا کہ وہ کسی ایسی جگہ جائیں جہاں اُن کے بچپن کا بیشتر حصہ گزرا ہو۔ معالج کے اِس مشورے کا تعلق انسان کی نفسیات کے اُس فراموش پہلو سے ہے جس میں وہ اپنے آبائی شہر اور یادوں کے دامن میں سکون‘ راحت اُور تندرستی محسوس کرتا ہے۔ معالج نے آرتھر گورڈن کو کسی سے بھی بات نہ کرنے حتیٰ کہ پڑھنے لکھنے سے بھی منع کیا اور چار نسخے لکھ کر دیئے کہ ایک نو‘ دوسرا بارہ‘ تیسرا تین اور چوتھا چھ بجے کھول کر دیکھے۔ پہلا نسخہ یہ تھا کہ ”دھیان (پوری توجہ) سے سنو“ آرتھر گورڈن نے سوچا کہ شاید ڈاکٹر پاگل ہے بھلا کوئی انسان مسلسل‘ بنا کچھ بولے تین گھنٹے تک کیسے سن سکتا ہے اور وہ کیا سنے گا؟ لیکن اُس نے معالج کے مشورے پر عمل کیا اور خاموشی سے گردوپیش کی آوازیں سنتا رہا۔ وہ ساحل سمندر پر کھڑا تھا جہاں مختلف قسم کی آوازیں اُس کی سماعتوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ کچھ دیر دھیان دینے سے اُس نے پایا کہ سمندر کی لہروں اور پرندوں کی آوازیں جو بظاہر معمول لگتی ہیں لیکن اِنہیں سننے میں بھی راحت ہے۔ اُسے دھیان دینے سے چند ایسی آوازیں بھی سنائی دیں جن کی منطق اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی لیکن جیسے جیسے وہ دھیان سے سن رہا تھا‘ ویسے ویسے اُس کے لئے گردوپیش میں دلچسپی بڑھ رہی تھی اور وہ قدرت و فطرت سے متعلق سوچنے لگا تھا کہ بچپن سے وہ جن مقامات پر کھیل کود کر بڑا ہوا ہے وہاں کیا کچھ ایسا بھی ہے جس کی طرف کبھی دھیان ہی نہیں گیا۔ دھیان سے سننے کی وجہ سے اس کی شخصیت میں صبر‘ احترام اور چیزوں کے ایک دوسرے پر باہمی انحصار سے متعلق آگاہی پیدا ہوئی۔ اُس نے اپنے آپ میں یہ صلاحیت پیدا کر لی کہ اب وہ صرف آوازیں ہی بلکہ خاموشی کو بھی سن سکتا تھا اور اِس تجربے سے اُسے اپنی اندر ایک طرح کے سکون کا احساس ہوا۔ دوپہر کے وقت‘ اُس نے معالج کی طرف سے دی گئی دوسری پرچی کھولی تو اُس میں لکھا تھا کہ ”واپس جانے کی کوشش کرو۔“ اب اُس کے ذہن اُلجھ گیا کہ وہ واپس کہاں جائے؟ اور وہ اِس نتیجے پر پہنچا کہ خوشی کے اُن لمحات اور اُن یادوں میں واپس جایا جا سکتا ہے جو گزر چکے ہیں لیکن وہ دائمی وجود رکھتے ہیں اور اگر انسان اپنی ذات کے اندر موجود خوشیاں تلاش کر لے تو اُس کے اردگرد خوشیوں کا ہجوم اُمڈ آتا ہے۔ جیسے جیسے وہ اچھے لمحات کی یاد میں محو ہونے لگا اُسے اپنا وجود پہلے سے زیادہ ہلکا اور مسرور محسوس ہوا اور اِس حالت میں اُسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ تین گھنٹے گزرنے بعد اُس نے معالج کی دی ہوئی تیسری پرچی کھولی تو اُس میں تندرستی و خوشحالی کا تیسرا نسخہ یہ لکھا تھا کہ ”اپنے
مقاصد پر نظرثانی (جانچ پڑتال) کرو“ خوداحتسابی پر مبنی یہ پیغام اپنی جگہ جامع تھا اور وہ ایک مرتبہ پھر سوچ میں پڑ گیا کہ کہ اُسے کہاں سے آغاز کرنا چاہئے۔ کیا زندگی کے طے شدہ مقاصد تبدیل بھی کئے جا سکتے ہیں؟ کیا مقاصد کا تعلق ظاہری کامیابی و سلامتی اور پہچان سے زیادہ داخلی سکون سے بھی ہوتا ہے یا ایک کے بعد ایک کامیابی ملنے کے بعد انسان پہلے سے زیادہ مضطرب اور پہلے سے زیادہ کوششوں میں اپنی توانائیاں خرچ کرنے لگتا ہے۔ جب اُس نے اپنی زندگی کے مقاصد پر نظر کی تو معلوم ہوا کہ بہت سے ایسے عوامل و محرکات ہیں جنہیں فوراً تبدیل کیا جا سکتا ہے اور اِسی میں انسانی زندگی کو لاحق جمود کی پریشانی کا حل (جواب) بھی موجود تھا۔ اُس نے اپنے محرکات پر گہرائی سے غور کیا اور ماضی کی خوشیوں کے بارے میں سوچا اور آخر کار اُسے وہ جواب مل گیا‘ جس کی اُسے تلاش تھی۔ اپنے تجربات کے بارے میں ’آرتھر گورڈن‘ نے بعدازاں لکھا کہ ”میں نے دیکھا کہ اگر کسی کے ارادے ہی غلط ہیں تو اُسے کچھ بھی اچھا اور صحیح حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی شخص کا پیشہ کیا ہے۔ وہ حجام ہے یا دکاندار‘ دفتری امور یا کسی کام کاج کا ماہر ہے اور معاش کے لئے معمولات رکھتا ہے یا گلی گلی گھوم پھر کر اشیاء فروخت کرتا ہے لیکن اُسے صرف ایک بات کا احساس ہونا چاہئے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے اُس کے دو بنیادی اہداف ہونے چاہیئں۔ ایک تو گردوپیش میں لوگوں کی خدمت کا احساس و اطمینان اُسے حاصل ہو اور دوسرا وہ اپنے کام کاج میں مستقبل کے آنے والوں کے لئے آسانیوں کا خواہشمند ہو۔ انسان
کی خوشی اِسی میں ہونی چاہئے کہ وہ دوسروں کو دیکھ کر خوش ہو۔ دوسروں کی خوشی میں مسرت اور دوسروں کے غم میں سوگواری محسوس کرنے والا ہی انسان کہلانے کا حقدار ہے۔آرتھر گورڈن نے چھ بجنے پر معالج کا دیا ہوا ’چوتھا نسخہ‘ کھولا۔ پرچی پر لکھا تھا ”اپنی پریشانیاں ریت پر لکھو“ وہ ساحل پر موجود تھا اور اُس نے فوراً ہی گھٹنے ٹیک دیئے اور سیپی کے ایک ٹوٹے ہوئے خول کو اُٹھایا اور لکھتا چلا گیا۔ جس کے بعد وہ اُٹھا اور اُس نے مڑ کر اپنی تحریر کردہ پریشانیوں کو نہیں دیکھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ سمندر کی لہر آئے گی اور سب کچھ مٹا دے گی! یہی زندگی کا سبق ہے کہ ہم اپنی پریشانیوں کو خود پر حاوی ہونے نہ دیں اور وقت کے ساحل پر کھڑے ہو کر اُنہیں کسی ایسی ریت پر لکھ دیں جو سفید کاغذ (قرطاس ابیض) کی مانند پھیلا ہو اور وہ سارے حقائق اپنے اندر سمیٹ لے۔معروف امریکی مزاح و طنز نگار ’کرٹ وونگٹ (1922-2007ء) نے پچاس سالہ برس میں چودہ ناول‘ تین مختصر کہانیوں کے مجموعے‘ پانچ ڈرامے اور پانچ نان فکشنز تخلیقات کیں۔ معروف کتاب ’کیٹس کریڈل (Cat's Cradle)‘ میں کرٹ وونگٹ نے لکھا کہ …… ”کائنات اور اِس میں مخلوقات کی تخلیق کا مقصد یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تنہائی کا احساس ختم کرنے کے لئے ایسا کیا گیا ہو؟ اور ہر تخلیق کا مقصد ہوتا ہے“ یہ بات کہتے ہوئے خالق کائنات نے معاملہ ہم انسانوں پر چھوڑ دیا کہ ہم اپنی ذات اور اپنے گردوپیش کے بارے میں سوچیں جو حصار یا قیدخانہ بلکہ ایک قسم کی آزادی ہے‘ جس سے ’مفید نتائج اور مستفید و لطف اندوز‘ ہونے کے لئے دعوت ِفکر و عمل دی گئی ہے۔زندگی کی سب زیادہ قیمتی شے زندگی ہے اور نسل انسان کی ”سب سے بڑی دریافت“ اِس کی ”سوچ“ ہے۔ اِسی سوچ کے ذریعے وہ اپنے آپ کو جان سکتا ہے‘ اپنے گردوپیش میں پھیلی حقیقتوں کا ادراک کر سکتا ہے۔ سوچ کے زوایئے زندگی کی تلخیوں کو شرینی سے بدل دیتے ہیں۔ سوچ زندگی بسر کرنے کا مفہوم اور معنی بدل سکتی ہے اور جب یہ سوچا جائے کہ ہمیں ’بغیر کسی مقصد کے پیدا نہیں کیا گیا تو سوچ کو رہنمائی (سمت) مل جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے‘ اِس بارے میں کبھی بھی نہیں سوچتے اور شاید نہ ہی جاننا چاہتے ہیں۔ دنیا میں آنا جانا لگا ہوا ہے۔ ایک طرف عمومی بے مقصدیت ہے جس کا حاصل حرص و طمع‘ لالچ و بددیانتی پر مبنی بے معنی طرزعمل ہے تو دوسری طرف زندگی کا خالص (بنیادی) مقصد ہے جو فکروعمل کے لئے آسودگی کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص واقعی اور حقیقتاً اپنی زندگی تبدیل کرنا چاہتے ہے یا ایک نئی زندگی جینا چاہتا ہے تو اُسے اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا جس کے 4 مراحل ہیں۔ دھیان سے سننے کی عادت ڈالی جائے جس کا حاصل خاموشی ہے۔ خوشگوار لمحوں کو فراموش نہ کیا جائے جن کا حاصل اچھے واقعات کی یادیں اور اُن کی حفاظت ہے۔ خوداحتسابی سے زندگی کے مقاصد پر نظر کی جائے جن کا حاصل زندگی کی تخلیق و مقصدیت سے آشنائی ہے اور پریشانیوں کو زیادہ اہمیت نہ دی جائے جن کا انعام سکون و اطمینان ہے ’سوچ‘ انسانی دماغ کی صلاحیت ہے جسے روکا تو نہیں جا سکتا البتہ سوچ کے سفر کی خوشگوار سمت متعین و معین کی جا سکتی ہے۔