خیبر پختونخوا کے فلور ملز مالکان نے اِس بات پر تشویش اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے کہ پنجاب حکومت نے ’شمال مغربی سرحدی صوبے‘ کے لئے گندم کی فراہمی پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور گندم کی قلت سے پیدا ہونے والے بحران میں خدشہ ہے کہ اگر یہ پابندی برقرار رہی تو بیس کلوگرام آٹا کا تھیلہ جس کی موجودہ قیمت کم و بیش تین ہزار روپے ہے بڑھ کر چار ہزار روپے ہو جائے گی۔درحقیقت فلور ملز نے صارفین کو اطلاع دیدی ہے کہ وہ چار ہزار روپے فی تھیلہ خریدنے کے لئے تیار رہیں حالانکہ 20 کلوگرام کا تھیلہ‘ چاہے پنجاب کی فلورملوں سے آتا ہو یا خیبرپختونخوا کی فلورملوں کا ہو‘ یہ کبھی بھی تول کر فروخت نہیں کیا جاتا اور نہ ہی آج تک ضلعی انتظامیہ نے بیس کلوگرام کے نام پر اٹھارہ سے اُنیس کلوگرام آٹے (کم وزن تھیلے) کی فروخت کا نوٹس لیا ہے! پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا کے چیئرمین حاجی اقبال اور سینئر رہنما نعیم بٹ نے پشاور میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ”پنجاب سے گندم کی نقل و حمل پر پابندی ’غیر آئینی‘ ہے اور صوبائی حکومت کو اِس کا نوٹس لینا چاہئے“پنجاب سے گندم یا آٹے کی نقل و حمل پر پابندی پہلی مرتبہ عائد نہیں ہوئی یعنی یہ غیرآئینی اقدام پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا اور نہ ہی گندم سے جڑا یہ واحد غیرآئینی اقدام ہے تاہم اِس مرتبہ گندم پر پابندی ایک ایسے وقت میں عائد کی گئی ہے جبکہ نئی گندم کی خریداری ہو رہی ہے اور گندم کی بظاہر کمی نہیں۔ عموماً اِس طرح کی صورتحال سال کے اختتام پر سامنے آتی ہے جب گوداموں میں پڑی ہوئی گندم ’اچانک‘ کم پڑتی ہے تو ایسے میں پنجاب سے گندم اور آٹے کی ترسیل کم یا بند کر دی جاتی ہے اور اب یہ بات سالانہ معمول بن چکی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا سال بھر کی ضرورت کے مطابق نئی گندم آنے کے وقت خریداری کرتا ہے لیکن یہ گندم ہر سال کم پڑ جاتی ہے تو اِس کے 2 بنیادی محرکات ہیں۔ ایک تو گندم کی ضرورت کے مطابق لگایا جانے والا حساب کتاب (اعدادوشمار) غلط ہے اور دوسرا گندم غیرقانونی طور پر افغانستان اسمگل ہو جاتی ہے اور یہ کام کوئی ریڑھی بان‘ مزدور‘ کسان‘ کاشتکار یا راہ گیر عام آدمی کی کارستانی نہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ حکومتی محکموں کے اہلکار پاک افغان سرحد پر تعینات ہونے کے باوجود گندم‘ گندم کے آٹے یا چینی اور دیگر اشیاء کی اسمگلنگ کیسے ہوتی ہے جبکہ ہر حکومتی اہلکار اور کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹس اِس اسمگلنگ کا قسمیہ انکار کرتے ہیں۔ چند دن پہلے‘ پشاور سے 55 کلومیٹر کے فاصلے پر پاک افغان طورخم سرحد کے ساتھ ملحقہ پہاڑی سے مٹی کا تودہ وہاں کھڑے ٹرکوں پر آگرا‘ جس سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں تاہم اِس مٹی کے تودے نے 2 ایسی بے قاعدگیوں کو بے نقاب کر دیا‘ جس کا ہر حکومتی ادارہ اور کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹس مسلسل انکار کرتے
آئے ہیں! ملبے سے کھود کر نکالے جانے والے کنٹینرز سے چینی‘ آٹے اور آٹے کی بوریاں برآمد ہوئیں جن پر دوبارہ مٹی ڈال دی گئی یعنی معاملہ رفع دفع کر دیا گیا کیونکہ اُن کنٹینروں کو خوردنی اجناس کی بجائے دیگر اشیاء کی افغان ترسیل کے لئے ’کلیئر‘ کیا گیا تھا۔بلاشک و شبہ یہ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ گندم کی دستیابی یقینی بنائے اور اِس سلسلے میں آئین کے آرٹیکل 151 کے تحت گندم یا دیگر خوردنی اجناس کی بین الصوبائی نقل و حمل پر کسی بھی قسم کی پابندی عائد کرنا خلاف آئین اقدام ہے تاہم خیبرپختونخوا حکومت کی یہ ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ صوبے کی ضرورت کے مطابق گندم کی کاشت کے لئے اقدامات و انتظامات کرے۔ چھوٹے کاشتکاروں اور زرعی گریجویٹس کو مراعات دیتے ہوئے آبی ذخائر تعمیر کئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ خیبرپختونخوا کا زرعی انقلاب نہ صرف اپنی ضرورت بلکہ ملک کے دیگر صوبوں کی ضروریات بھی پوری کرنے کے قابل ہو جائے گا اور ملک کے موجودہ معاشی بحران میں زرعی شعبے کی ترقی ہی پائیدار حل ہے۔تاثر دیا جاتا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کی ترسیل پر پابندی عائد کرنے سے وفاق کی اکائیوں میں نفرت پیدا ہو رہی ہے اِس لئے خیبرپختونخوا حکومت کو مداخلت کرنی چاہئے لیکن حقیقت پسندانہ اور منصفانہ مداخلت یہ ہو گی کہ فلور ملوں کو فراہم کی جانے والی گندم کا حساب بھی لیا
جائے۔ فلور ملز مالکان کی جانب سے اپنی آمدنی کی فراہم کردہ معلومات اِن کے اثاثوں اور رہن سہن سے مطابقت نہیں رکھتی۔ تاجر مصنوعی مہنگائی کے لئے ذمہ دار ہیں لیکن خود کو ایسا معصوم بنا کر پیش کرتے ہیں جیسا کہ اِنہیں کچھ علم ہی نہ ہو کہ گندم کی ذخیرہ اندوزی‘ سٹہ بازی اور اسمگلنگ کون کرتا ہے اور اگر یہ طبقات ملوث نہیں تو مطالبہ کیوں نہیں کرتے کہ حکومت قانون نافذ کرنے والے اور خفیہ اداروں کے ذریعے چھان بین کروائے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ پاکستان میں ہر بے قاعدگی کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے لیکن آج تک گندم‘ گندم کے آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کے لئے کہیں سے جوڈیشل کمیشن بنا کر تحقیق و تفتیش کرنے کا مطالبہ سامنے نہیں آیا حالانکہ یہ وقت کی ضرورت ہے اور اِسی کے تحت اُن فیصلہ سازوں کی کارکردگی کا بھی احتساب ہونا چاہئے جو خیبرپختونخوا میں زرعی ترقی کی راہ میں دانستہ طور پر سرمایہ کاری نہیں کرتے اور خاطرخواہ حکومتی توجہ نہ ملنے کی وجہ سے خیبرپختونخوا کے بیشتر چھوٹے کاشتکاروں کے لئے زراعت منافع بخش پیشہ نہیں رہا۔ دوسری اہم بات موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جن سے چھوٹے کاشتکار نسبتاً زیادہ متاثر ہوتے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے مراعات بڑے زرعی جاگیرداروں کو دی جاتی ہیں جو سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے فیصلہ سازی پر حاوی ہیں۔پنجاب ملک بھر کے لئے گندم کی ضروریات کا 80فیصد مہیا کرتا ہے تاہم رواں برس پنجاب میں گندم کی فصل موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات و دیگر وجوہات کی بنا پر کم ہوئی ہے۔ پنجاب کی نگران حکومت کے 8 ویں کابینہ اجلاس (4 مارچ 2023ء) میں ”گندم خریداری پالیسی 2023-24ء“ کی منظوری دی گئی تھی جس کے تحت پنجاب بھر میں مقررہ ’395 مراکز‘ رواں برس 35 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدیں گے اور خریداری کا یہ عمل جاری ہے۔ حسب قومی ضرورت گندم کی پیداوار‘ اِس کی حکومتی خریداری اور بعدازاں اِس کی ملک بھر میں فراہمی کا نظام نظرثانی چاہتا ہے۔ رواں برس سندھ اور پنجاب نے وفاقی حکومت کو مجبور کیا کہ وہ گندم کے مقررہ نرخ (امدادی قیمت) میں اضافہ کرے اور اِس سلسلے میں پہل کرتے ہوئے سندھ اور پنجاب نے گندم کی امدادی قیمت کے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیئے جن پر وفاقی حکومت نے تحفظات کا اظہار کیا۔ ذہن نشین رہے کہ سندھ حکومت نے رواں برس کے لئے 40 کلوگرام گندم کی قیمت 4 ہزار روپے جبکہ پنجاب نے چالیس کلوگرام گندم کی قیمت 3900 روپے مقرر کی ہے۔ وفاقی حکومت نے بھی چالیس کلوگرام گندم کی قیمت 4000 روپے مقرر کی تاکہ کاشتکاروں کو فائدہ ہو سکے لیکن اِس حوالے سے ’پاکستان ایگریکلچرل اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو)‘ نے مطالبہ کر رکھا ہے کہ ملک میں گندم کی یکساں قیمت مقرر ہونی چاہئے۔