ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر ’راشد المحمود تیمور‘ نے ایک زراعت کے حوالے سے ایک کتاب لکھی ہے جس کا موضوع اُس کے نام ”زرعی پیداوار میں کمی کیوں ہوتی ہے: ترقی پذیر ممالک میں زراعت اور سیاسی معیشت (کا تال میل کیا ہے؟) سے واضح ہے۔ کتاب امریکہ کے معروف اشاعتی گھر ’پرڈو یونیورسٹی پریس (انڈیانا)‘ نے شائع کی ہے۔ سات ابواب اور 230 صفحات پر مشتمل اِس کتاب کے اصل نسخے کی قیمت پچاس ڈالر (پندرہ ہزار پاکستانی روپے) ہے لیکن اِس کا نقل شدہ نسخہ پندرہ سو پاکستانی روپے میں دستیاب ہے۔
زراعت کا موضوع اِس لئے اہم ہے کہ کیونکہ اِسی پر انسانی بقا کا دارومدار ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ زراعت کی اہمیت اور اِس سے متعلق زرعی موضوعات پر گزشتہ دو دہائیوں میں سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب کے مطابق زرعی پیداوار میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔ تو ’کتاب کہانی‘ میں ورق گردانی کرنے سے پہلے قارئین یہ نکتہ ذہن میں رکھیں کہ زراعت کیا ہے؟ زرعی پیداوار کو لاحق خطرات کیا ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں میں زرعی پیداوار میں کمی کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے وغیرہ جیسے موضوعات پر غوروخوض اپنی جگہ لیکن بنیادی ضرورت ’عمل‘ کی ہے کہ فوری طور پر دیگر سبھی ترجیحات کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف اور صرف کاشتکاری کا فروغ عمل میں لایا جائے تو یہ حکمت عملی نہ صرف معاشی مشکلات کا پائیدار حل ثابت ہوگا بلکہ اِس سے قومی شرح نمو اور قومی سطح پر کاروباری و صنعتی پیداوار و روزگار میں بھی اضافہ ہوگا۔دنیا گلوبل ویلیج ہے۔ ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر (ماہر تعلیم) کی کتابیں 12 ہزار 838 کلومیٹر دور امریکہ سے شائع ہو رہی ہیں۔ اِس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مذکورہ کتاب (زرعی پیداوار میں کمی کیوں ہوتی ہے) کا تعلق پاکستان کے زرعی شعبے یا اِس شعبے کو درپیش مشکلات (چیلنجز) سے نہیں ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ کتاب پاکستان کے لئے بھی یکساں طور پر انتہائی اہم ہے کیونکہ ہمارے ہاں بھی گزشتہ دو دہائیوں سے زرعی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ صرف وہی معیشت جو اپنی خوراک کی ضروریات (غذائی تحفظ) اور زراعت کے بارے میں فکرمند ہوتے ہوئے اِسے فروغ دیتی ہے اُسی کے لئے ممکن ہوتا ہے کہ وہ صنعت و برآمدات کو خام مال فراہم کرے جبکہ پاکستان کی صورتحال یہ ہے ایک تو یہ قدرتی آفات کا شکار ہے اور دوسرا اِس کے سر پر مزید قدرتی آفات کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ اپریل اور مئی کے دوران غیرمتوقع بارشیں گندم کی فصل کے لئے اچھی نہیں۔ یہ وہ دور ہے جب گندم کو کھلی کھلی اور تیز دھوپ درکار ہوتی ہے۔ موسموں کو درست کرنا بالکل اُسی طرح انسانوں کے بس میں ہے جس طرح اِنہیں عدم توازن میں لانے کے لئے انسانوں ہی کی کارستانیوں سے یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے کہ اب دال ساگ اور گندم کی ضرورت بھی ہماری اپنی پیداوار سے پوری نہیں ہوتی۔ یادش بخیر اُنیس سو ساٹھ کی دہائی میں ان پٹ پر مبنی سبز انقلاب کا خاتمہ‘ ستر کی دہائی میں ڈیموں پر مبنی پانی کی دستیابی اور اس کے بعد ٹیکنالوجی تک ناقص رسائی رہی۔مذکورہ کتاب کے مصنف (راشد المحمود تیمور) نے اپنی کتاب میں کئی نئی وضاحتیں پیش کی ہے تاہم اُنہوں نے یہ تصور پیش کیا ہے کہ زرعی پیداواری ضروریات (ان پٹ) یا پیداوار کے عوامل کو محدود کرنے کی بجائے انہیں وسعت دی جائے اور لین دین‘ جائیداد کے حقوق اور اِس حوالے سے رسمی اور غیر رسمی اداروں کو ناکام زرعی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لئے غوروفکر کرنا چاہئے۔ کتاب کا مرکزی تصور (سیاق و سباق) بنگلہ دیش ہے لیکن چونکہ اِس میں دی گئی تجاویز پاکستان کے لئے بھی قابل عمل ہیں اگر اِنہیں قابل عمل سمجھا جائے۔ راشد المحمود تیمور کی جانب سے سب سے دلچسپ تجزیہ زمین کے سائز اور پیداواری صلاحیت کے درمیان تعلق سے متعلق ہے۔ اُنہوں نے توجہ دلائی ہے کہ زرعی اراضی کے تحفظ کے لئے کوششیں ہونی چاہیئں اور اگر اِس نازک وقت میں ’لینڈ ریفارمز‘ کر کے زرعی اراضی کو نہ بچایا گیا تو وقت کے ساتھ زیرکاشت رقبے میں مزید کمی ہوتی چلی جائے گی اور زرعی اراضیاں خاندانوں میں تقسیم در تقسیم ہو کر ختم ہو جائیں گی یا پھر زرعی مقاصد کے لئے ان کا استعمال (استفادہ) محدود ہو جائے گا۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں وراثت سے جڑے تنازعات اور زمینوں پر حق ملکیت کے حوالے سے اختلافات ناقابل تلافی جانی نقصانات کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ بنگلہ دیش نے آبادی بڑھنے (سالانہ شرح نمو) پر کمی کی ہے لیکن پاکستان میں ایک اوسط خاندان کا سائز کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔ بہت سے چھوٹے زمینداروں کے پاس زیرکاشت اراضی کرائے پر ہوتی ہے اُن کی اپنی ملکیت نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ وہ مٹی کی زرخیزی یا اِسے مصنوعی کھادوں یا ادویات سے پہنچنے والے نقصانات کی زیادہ پرواہ نہیں کرتے۔ اگر چھوٹے کاشتکاروں اور زرعی گریجویٹس کو حکومت اراضی بنا کسی قیمت وصولی کئے اجارے پر دے تو اِس سے ملک میں ایک زرعی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ راشد المحمود تیمور لکھتے ہیں کہ ”زمین کی تقسیم سے زراعت کی پیداوار متاثر ہوئی ہے کیونکہ چھوٹا کاشتکار کے پاس زیرکاشت رقبہ کم ہے اور اُس کی مالی حیثیت بھی ایسی نہیں کہ وہ مزید (زیادہ) رقبہ کرائے پر حاصل کرے۔ زرعی اراضی کی کاشتکاری کے علاوہ دیگر مقاصد کے لئے استعمال کی وجہ سے بھی موسمیاتی تبدیلیاں آئی ہیں۔ چھوٹے کاشتکاروں کے لئے اب پیداواری لاگت اور زمین کے نقصانات میں اضافہ ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ کاشتکار ہنرمند ہے۔ محنت کش ہے۔ اپنا خون پسینہ ایک کرنے کا عزم رکھتا ہے لیکن ’بے زمینی‘ بڑھتی جا رہی ہے۔ قومی وسائل کی تقسیم کرتے ہوئے زیادہ حصہ بصورت مراعات اُنہی طبقات کو مل رہا ہے جو پہلے ہی سرمایہ دار ہیں! زرعی شعبے کی بحالی اور ترقی کے لئے ضروری ہے کہ آبادیاتی اور ماحولیاتی عوامل کا جائزہ لیا جائے اور ایک ایسا لائحہ عمل وضع کیا جائے جو زیادہ سے زیادہ کاشتکاری اور زیادہ سے زیادہ زراعت پر مبنی ہونا چاہئے۔“ علم مومن کی گمشدہ میراث ہے‘ جہاں کہیں سے میسر آئے اِسے بصد شکریہ و احترام لے لینا چاہئے۔ پاکستان کے قومی و صوبائی پالیسی سازوں‘ محققین‘ صحافیوں اور لینڈ ریفارم کرنے کے لئے حکومتی ذمہ داریاں رکھنے والوں کو اِس ”بصیرت افروز“ کتاب کا لازماً مطالعہ کرنا چاہئے اور زراعت کے طالب علم بھی نصابی کتب کے ہمراہ اِس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں۔