موسمیاتی تبدیلی ایک ایسی صورت حال ہے جو دنیا کو جنت سے دوزخ بنا رہی ہے اور اِس عمل کو روکنا ممکن ہے‘ ہم میں سے ہر کوئی آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنا چاہتا ہے لیکن کوئی بھی اس مقصد کے لئے اپنے معمولات ترک کرنے اوراپنی عزیز ترین چیزوں کی قربانی دینا نہیں چاہتا‘ مثال کے طور پر ماحول دوستی یہ ہے کہ منہ دھوتے یا نہاتے ہوئے کم سے کم پانی استعمال کیا جائے لیکن راحت یہ ہے کہ فوارے (شاور) کے نیچے کھڑا رہا جائے‘ اِسی طرح گھریلو سطح پر سبزیاں اُگائی جا سکتی ہیں اور اِس عمل کا زیادہ تر حصہ خودبخود سرانجام پاتا ہے لیکن قدرت کی بجائے کیمیائی کھادوں کے ذریعے زیادہ سبزی اور پھل حاصل کئے جاتے ہیں جس سے زمین متاثر ہورہی ہے‘ چلتے چلتے انسان اس مقام پر آ کھڑا ہوا ہے جہاں اِس کے رہن سہن اور ماحول دوستی میں نمایاں فرق دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے‘بجلی کی طاقت سے چلنے والی گاڑیاں ایجاد کی گئیں جو سستے ایندھن کا ذریعہ ہیں لیکن برقی رو کو محفوظ (ذخیرہ) رکھنے کے لئے جو آلات (بیٹریاں) استعمال کی جاتی ہیں اُن کی تیاری اور استعمال (ناکارہ ہونے) کے بعد ماحول دوستی پر کتنا منفی اثر پڑتا ہے‘ اِس حوالے سے بہت کم غوروخوض کیا جاتا ہے‘دنیا بھر کے کاروباری ادارے (کارپوریشنیں) زیادہ سے زیادہ منافع کو
کاروباری حکمت عملی کی کامیابی سمجھتی ہیں اور اگرچہ وہ اپنی بنیادی سرمایہ کاری سے کئی ہزار گنا زیادہ کما بھی چکی ہیں لیکن وہ ماحول کی بہتری میں اپنا منافع لگانا نہیں چاہتیں اور ماحول دوستی کے لئے جو عشر عشیر دیا بھی جاتا ہے اُس کے ذریعے مارکیٹنگ کر کے وہی رقم دوبارہ کما لی جاتی ہے‘ صنعتوں کی چمنیوں اور پیداوار سے خارج ہونے والی گرمی کی وجہ سے کرہئ ارض کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے‘ ہر گرمی پہلے سے زیادہ گرمی اور ہر سردی پہلے سے زیادہ شدید سردی کا ریکارڈ توڑ رہی ہے‘ ائرکنڈیشنز کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور ماحول کے ساتھ گزربسر کا سلیقہ و ہنر سیکھنے کی بہت ہی کم کوشش کی جاتی ہے‘ ماضی میں مٹی کے گھڑے اور مٹی سے بنے ہوئے برتنوں کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے لذت و
غذائیت کے علاؤہ کھانے کو موسمی درجہئ حرارت کے مطابق ٹھنڈا اور گرم رکھنا ممکن تھا لیکن اب پلاسٹک کے برتن بنانے میں ایک تو ماحول کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ پلاسٹک کا کوئی برتن بنا ماحول کو نقصان پہنچائے بنایا جا سکے کیونکہ پلاسٹک کی قدرتی طور پر تحلیل ہونے کی عمر (عرصہ) سینکڑوں اور بعض صورتوں میں ہزاروں سالوں تک محیط ہے۔ پلاسٹک کے برتنوں میں کھانے پینے کی اشیاء رکھنا بطور فیشن (ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی) اپنا لیا گیا ہے لیکن اِس کی وجہ سے صحت کی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ماحول دوستی حتیٰ کہ ’حب الوطنی‘ بھی وہاں آ کر رک جاتی ہے‘ جہاں سے آمدنی اور ٹیکس کی حدیں شروع ہوتی ہیں۔ ہر شخص راحت و آرام ہی نہیں بلکہ اپنے مالی فائدے کو بھی عزیز رکھتا ہے جس میں حرج نہیں لیکن اگر اِس ذاتی فائدے کے لئے ماحول دوستی پر سمجھوتہ ہو رہا ہے تو یہ اجتماعی لحاظ سے درست عمل نہیں ہے۔ ماحول دوستی کا دائمی انعام یہ ہے کہ دنیا کو ایسی جنت نظیر جگہ بنایا جائے جہاں ہر جاندار اپنی زندگی جی سکے۔ اُس کے لئے زندگی زحمت نہ ہو اور وہ ایسے مسائل کا شکار نہ ہو کہ اپنی سب سے قیمتی شے (زندگی) ہی سے بیزار دکھائی دے۔