عوامی جمہوریہ چین کی دعوت پر دلی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی شرکت،بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر سے ملاقات اور بھارتی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو پر مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں کی طرف سے اعتراضات کئے جارہے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کرنا اس لحاظ سے ضروری تھا کہ اجلاس میں شرکت کی دعوت بھارت نے نہیں، بلکہ چین نے دی تھی۔اجلاس سے خطاب اور ٹی وی انٹرویو میں بلاول بھٹو نے پاکستان کا موقف مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔تاہم بھارتی حکومت اور ان کی میڈیا نے پاکستان کے وزیرخارجہ کے ساتھ جو برتاؤ کیا۔ وہ سفارتی آداب کے منافی اور بھارتیوں کے دیرینہ بغض کامظہر تھا۔ بھارتی وزیرخارجہ نے میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے پاکستان پر دہشت گردوں کی اعانت کے الزامات دہرائے۔ان کا کہنا تھاکہ پاکستانی وزیرخارجہ اپنے ملک کے جرائم پرپردہ ڈالنے کی کوشش کررہا تھا۔جبکہ بھارت دہشت گردی کا شکار ہے اور ہم نے بلاول کے ساتھ جو رویہ اپنایا ہے وہ فطری تھا۔ خود بھارت کے سنجیدہ صحافیوں نے جے شنکر کے طرز عمل پرسخت الفاظ میں تنقید کی ہے اور اسے بھارت کی تہذیب و ثقافت اور سفارتی آداب کے سراسر منافی قرار دیا ہے۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے بھارتی عوام اور میڈیا کو واضح الفاظ میں یہ پیغام دیا کہ اگست 2019 میں انڈیا کی جانب سے جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل کی گئی جس کے بعد انڈیا سے رابطے بحال کرنے والوں کے لیے اپنے موقف پر قائم رہنا مشکل ہو گیا۔انڈیا اور پاکستان کے درمیان بات چیت نہ ہونے کی یہی واحد وجہ ہے۔ بلاول بھٹو نے انڈیا ٹوڈے کو دئیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا کہ
ہم نے کلبھوشن یادیو کو پکڑا، وہ حاضر سروس نیوی کمانڈر تھے، کیا یہ جائز الزام نہیں۔انہوں نے اینکر کے جذباتی اور جارحانہ رویے پر کہا کہ میں آپ سے واضح طور پر اور دلائل کی بنیاد پر بات کر رہا ہوں۔ میں جذبات کے بغیر حقائق بیان کر رہا ہوں۔ لیکن آپ ہائپر ہو رہے ہیں۔بھارتی حکومت اپنے سیاسی مفادات کی خاطر عوام کو ابھارنے کے لئے دہشتگردی کی بات کررہی ہے۔جو درحقیقت اسلاموفوبیا ہے۔ یہ ایک اچھی انتخابی حکمت عملی ہو سکتی ہے، لیکن انسداد دہشتگردی کی اچھی حکمت عملی نہیں ہوسکتی۔بات کو ٹالنے کے لئے بھارتی اینکر نے پاکستان کے گِرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر سے متعلق سوال کیا جس کے جواب میں بلاول نے کہا تو کیا میں اپنے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے کشمیر میں ناانصافیاں بھول جاؤں؟پی ڈی ایم کی حکومت، پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو کی سیاست اور شخصیت سے لوگوں کا اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وہ پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔اور انہوں نے پاکستان کا اصولی موقف دنیا پر واضح کردیا ہے۔ جہاں تک اس دورے کی کامیابی یا ناکامی کا سوال ہے۔ کسی کو بھی یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ بلاول کے دورہ بھارت سے پاک انڈیا تعلقات میں بہتری کے امکانات تھے۔ بدقسمتی سے ہمارا جارح پڑوسی پاکستان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتا۔ ان سے تجارت، دوستانہ تعلقات اور احترام کی توقع رکھنا خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کا یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ پاکستان نے ایک بار پھر دنیا پر اپنا اصولی موقف واضح کردیا ہے۔بھارتی حکومت اور ان کے طفیلی میڈیا کے توہین آمیز رویے کی وجہ سے قوموں کی برادری میں بھارت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کسی کے گھر میں بیٹھ کر اس کے منہ پر اسے ظالم، جابر، غاصب اور دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا قرار دینا جرات کا کام ہے۔پاکستان کے وزیرخارجہ نے ایک بار پھر بھارت کا مکروہ چہرہ اقوام عالم کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔