گزشتہ دنوں کراچی کے مختلف علاقوں میں سورج کے گرد بہت واضح ہالہ دیکھا گیا۔سورج کے گرد ہالہ کیسے بنتا ہے اس ا س کے عوامل کیا ہیں، پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے مطابق سورج کے گرد بننے والے ہالے کو سائنسی اصطلاح میں سولر ہالو کہا جاتا ہے۔ زمین پر دریاؤں اور سمندروں وغیرہ سے پانی کے بخارات اوپر اٹھتے ہیں اور ایک خاص بلندی پر مناسب درجہ حرارت کے زیر ِ اثر یہ بخارات ٹھنڈے ہو کر پانی کے قطروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔اگر بلندی پر حالات بادلوں کے لیے سازگار نہیں ہوں اور درجہ حرارت مسلسل گرتا رہے یہ تو قطرے مزید ٹھنڈے ہو کر آئس کرسٹل یا برف کی قلموں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ زمین سے 8 سے 16 کلومیٹر کی بلندی پر ماحول کی پہلی تہہ کو ٹروپوسفیئر کہا جاتا ہے، جہاں سے درجہ حرارت مسلسل گرنا شروع ہوجاتا ہے‘ ماہرین موسمیات کے مطابق اس دوران ایئر بورن پارٹیکل اہم کردار ادا کرتے ہوئے برف کے گالے یا اولے تشکیل دیتے ہیں، جن کا انحصار اس وقت ما حول کی صورتحال، ہوا کے کم دباؤ اور درجہ حرارت پر ہوتا ہے۔ بہت زیادہ بلندی پر موجود بادلوں میں بننے والی برف کی قلموں کی شکل ہیگزاگونل اور اوپرکی سطح بالکل ہموار ہوتی ہے۔ ان بادلوں کو سائنسی اصطلاح میں سیرس یا سیرس سٹریٹس کلاڈ کہا جاتا ہے۔ ان قلموں پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے تو یہ ایک منشور کی طرح عمل کرتے ہوئے روشنی کو منعطف کر کے سورج کے اطراف دائرے میں بکھیر دیتی ہیں، جس سے سورج کے گرد ہالہ بنتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سورج کے گرد ہالے کی خصوصیات کیا ہیں؟ اس ضمن میں ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ بہت بلندی پر برف کی یہ قلمیں بے ترتیب بنتی ہیں مگر یہ سورج کی روشنی کو ہر جانب یکساں بکھیر تی ہیں جس سے خوبصورت ہالہ تشکیل پاتا ہے۔ سورج کے گرد تین اقسام کے ہالے بنتے ہیں زیادہ ترگرم علاقوں میں دائروی ہالہ بنتا ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس طرح کے ہالے میں رِنگ کے اندر سے روشنی منعطف نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے رِنگ کے اندر آسمان اطراف سے زیادہ گہرے رنگ کا نظر آتا ہے۔اس حوالے سے جو یہ خبریں آئی ہیں یا چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ یہ طوفانی موسم کا پیش خیمہ ہے بالکل غلط ہے۔ پاکستان میں زیادہ تربارشیں مون سون، ویسٹرن ڈسٹربینس سائیکلون یا مقامی گرم و مرطوب ہوا کے باعث ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی بھی نظام کا شمار کولڈ فرنٹ میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا پاکستان میں سورج کے گرد بننے والے ہالے سے کسی بھی طور آنے والے طوفان یا خراب موسم کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔تاہم اس قدر ضرور ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات تاحال جاری ہیں اور معمول سے درجہ حرارت کم ہے۔ ملک میں اب تک درجہ حرارت اس لیول پر نہیں جو اس مہینے میں ہوتا ہے تاہم ساتھ یہ بھی مد نظر رہے کہ اگر گرمی میں اچانک اضافہ ہوگا تو یہ کئی طرح کے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔اس وقت پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہونے والی ممالک میں سرفہرست ہے اور گزشتہ سال مون سون کی بارشوں نے جو تباہی مچائی اور اس کے نتیجے میں جانی و مالی نقصان کا سامنا کرناپڑا اس یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس حوالے سے اب محتاط رہنا پڑے گا۔اس سال بھی اگر سیلاب آنے کے امکانا ت ہیں تو پیشگی انتظامات کے ذریعے اس سے ہونے والے نقصان کو کم سے کم رکھنے پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔