پاکستان جس سیاسی و معاشی عدم استحکام سے دوچار ہے اُس سے نکلنے کیلئے دوست ممالک کی جانب سے صرف امداد ہی پر اکتفا اور مزید امداد ملنے کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے بلکہ دوست ممالک کے تحفظات کو بھی بغور سننا ضروری ہے۔ رواں ہفتے عوامی جمہوریہ چین کے وزیر خارجہ چن گینگ نے کہا ہے کہ ”چین کو اِس بات کی امید ہے کہ پاکستان میں سیاسی محاذآرائی کم ہو گی‘ سیاسی جماعتیں آپس میں اتفاق رائے پیدا کریں گی اور درپیش داخلی و بیرونی چیلنجز سے مؤثر انداز میں نمٹنے کے بارے میں سوچا جائے گا تاکہ معیشت کی ترقی‘ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور پاکستان کو ترقی و بحالی کی راہ پر گامزن کرنے پر توجہ دی جا سکے۔“ چین کے وزیرخارجہ چن گینگ کا حالیہ دورہئ پاکستان خاص اہمیت کا حامل تھا جس میں چین‘ پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے سہ فریقی مذاکرات ہوئے اور اِن مذاکرات کے علاوہ چین کی جانب سے ’سیاسی استحکام‘ کا پیغام بھی دیا گیا جسے نظرانداز نہیں کرنا چاہئے‘ مذکورہ سہ فریقی اجلاس کے علاوہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور ان کے چینی ہم منصب نے پاک چین سٹریٹجک ڈائیلاگ کے چوتھے دور کی مشترکہ صدارت بھی کی۔پاکستان میں سیاسی استحکام سے متعلق چین کا بیان رسمی نہیں بلکہ نہایت ہی اہم اور موجودہ حالات میں بہت سے مسائل کا حل ہے‘پاکستان کے حالات سال بھر سے ہنگامہ خیز ہیں اور یہی سال بھر کا عرصہ ملک میں مہنگائی کے مسلسل اضافے کا عرصہ بھی ہے‘ سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی عدم استحکام ظاہر ہوتا ہے‘کاروباری طبقات یا معیشت پر نظر رکھنے والوں کو یاد ہوگا کہ سال دوہزارچودہ میں چین کے صدر شی جن پنگ نے پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ کرنا تھا لیکن یہ دورہ سیاسی حالات ہی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ پاکستان میں سیاسی اور معاشی طور پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے تناظر میں چینی وزیر خارجہ کا یہ کہنا غلط نہیں کہ ”پاکستان کو استحکام کی ضرورت ہے۔“ چین کے وزیر خارجہ کا پاکستان کے اندر استحکام کی ضرورت محسوس کرنا اور اِس نازک مسئلے کو اٹھانا ظاہر کرتا ہے کہ چین پاکستان کا خیرخواہ ہے ورنہ چین کی خارجہ پالیسی یہ ہے کہ وہ عموماً کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور مداخلت کرے بھی تو بالخصوص اُس کے حوالے سے اظہار خیال کو ضروری نہیں سمجھتا اور اپنی دھن میں سب کچھ خاموشی سے کرتا رہتا ہے۔ چین نے حال ہی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر کے ایک ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا تو اگر سیاسی استحکام کی تجویز دینے کی بجائے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے چین کوئی کردار ادا کرے‘ جو کہ وہ کر سکتا ہے تو اِس کوشش کا فوری اور بہتر نتیجہ برآمد ہوگا۔چین پاکستان کیساتھ اپنے تعلقات کو ہمیشہ ہی سے اہمیت دیتا آیا ہے اور بالخصوص ’روڈ اینڈ بیلٹ انشی ایٹو (BRI)کے تحت بننے والی ’چین پاکستان اقتصادی راہداری حکمت عملی کے بعد تو چین کی پاکستان کے سیاسی و معاشی استحکام میں دلچسپی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ چین مستحکم پاکستان دیکھنے کیلئے پرعزم ہے اور وہ ایک خوشحال ہمسایہ چاہتا ہے جس کیساتھ اس کے ایسے تعلقات ہیں کہ جو مالی‘ دفاعی‘ بنیادی ڈھانچے اور سفارتی سطح پر ایک دوسرے کی مدد و سرمایہ کاری پر مبنی ہیں۔ چین کی جانب سے پیغام کے بعد ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس حقیقت کا اِدراک کریں کہ کس طرح سیاسی عدم اِستحکام پاکستان کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو بھی متاثر کر رہا ہے اور کس طرح پاکستان کے دوست ممالک تشویش کا شکار ہیں! توجہ طلب ہے کہ دیگر ممالک کی طرح دیرینہ دوست اور سٹریٹجک شراکت دار چین کی قیادت موجودہ سیاسی غیر یقینی صورتحال کو قریب سے اور نہایت ہی محتاط انداز سے دیکھ رہی ہے جو ہر دن ہونے والی معاشی زوال پذیری کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر اپنے سیاسی اختلافات‘ بالائے طاق رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی راہ پر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے‘ اتفاق رائے کے بغیر کوئی بھی الیکشن تنازعات کے حل کا باعث نہیں بن سکتا اور جو بھی اقتدار میں آئے گا اسے سڑکوں پر احتجاج کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ سال دوہزارچودہ کے بعد سے معمول بن چکا ہے۔ جمہوریت میں احتجاجی مظاہرہ بنیادی حق تصور ہوتا ہے اور یہ مظاہرے چاہے کتنے ہی جمہوری کیوں نہ ہوں لیکن اِن سے معیشت غیر مستحکم ہوتی ہے اور بنا مضبوط معیشت جمہوریت کی تصویر اور تصور دونوں ہی ادھورے رہتے ہیں۔‘جب چین جیسے دوست ممالک نے عوامی سطح پر یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ سیاسی استحکام ہونا چاہئے تو پھر اِس نشاندہی کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے پاکستان میں ہر طرح کے ’استحکام‘ کی کمی محسوس کی جانی چاہئے جس میں سرفہرست ’سیاسی استحکام‘ ہے۔ وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں چین کے پیغام کا خاطرخواہ سنجیدگی سے ’نوٹس‘ لیں۔ درحقیقت چین جن شعبوں اور معاملات میں پاکستان کی مدد کرنا چاہتا ہے اُس کی راہ میں سیاسی عدم استحکام حائل ہے۔ چین کا مقابلہ امریکہ سے ہے اور امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لئے چین کو براستہ پاکستان تجارتی روابط بڑھانے ہیں اور اُن تمام رکاوٹوں کو بھی دور کرنا ہے جو چین کے ترقی پسندانہ عزائم اور خطے کی ترقی کی رفتار پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ چین اور امریکہ کے تعلقات کو مستحکم کرنا ضروری ہے کیونکہ ”غلط الفاظ اور اعمال“ کی وجہ سے اِن تعلقات میں سرد مہری پیدا ہو رہی ہے۔ پاکستان کے داخلی حالات کی درستگی سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں ہے‘اس ضمن میں سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح پاکستان کے دوست ممالک پریشان ہیں اور کس طرح بین الاقوامی برادری اِس پورے منظرنامے کو دیکھ رہی ہے۔