ایک طرف حکومت کو توقع ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ جون تک پیچ اپ ہوگا جب ایک ارب ڈالر ملیں گے تو کچھ تیل اور بجلی کی قیمتوں میں عوام کو عارضی ریلیف د ے کر حکومت عوام کی مشکلات کو کم کرنے میں کامیاب ہوسکے گی جبکہ دوسری طرفآئی ایم ایف نے یہ شرط لگا کر معاملے کو اٹکا لیا ہے کہ قرضے کی قسط حاصل کرنے کے لئے پاکستان کو جون تک پرانے قرضوں کی ادائیگی کرنا ہوگی۔گویا ہمیں لینے کے دینے پڑ گئے ہیں آئی ایم یف قرضے میں تاخیر سے ملک کی معاشی صورتحال روز بروز خراب ہورہی ہے اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں یہ صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے۔ اس وقت آئی ایم ایف کی نت نئی شرائط نے حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ روز نئی شرائط لیکر سامنے آتا ہے۔ انہوں نے دوست ملکوں سے پاکستان کی ضمانت بھی طلب کی ہے۔ غیر سرکاری اخراجات کی فہرست بھی مانگ لی ہے۔ ایک وقت تھا کہ امریکہایسے حالات میں پاکستان کی مدد کرتا تاہم اس وقت امریکہ نے پاکستان کو آئی ایم ایف پر چھوڑ رکھا ہے اور اس ک پیچھے شاید امریکہ کا ہاتھ بھی ہو کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ وہ تمام شرائط یک مشت بتانے کے بجائے ایک ایک کر کے بتارہا ہے۔آئی ایم ایف کے ساڑھے چھ ارب ڈالر کے قرض پیکیج میں سے دو اعشاریہ چھ ارب ڈالر کی جو دو آخری قسطیں پاکستان کو ملنی تھیں وہ مالیاتی تفتیش میں اٹک کر رہ گئی ہیں اور موجودہ آئی ایم ایف پروگرام بھی 30 جون کو ختم ہو جائے گا۔پاکستان کا نیا سالانہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کی کڑی نگرانی میں بنانا ہوگا بصورتِ دیگر پاکستان کے لئے اگلے فنڈنگ پروگرام کی منظوری میں زیادہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔آئی ایم ایف کو سب سے زیادہ فنڈز امریکہ فراہم کرتا ہے جو مجموعی فنڈ کا تقریبا ً17 فیصد بنتا ہے۔اور امریکہ کا قرض لینے کا کوٹہ بھی سب سے زیادہ ہے۔قرض کی فراہمی کیلئے امریکہ کے بعد سب سے زیادہ ووٹ جاپان، چین، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور اٹلی کے ہیں۔ان میں سے صرف چین ہمار ے حق میں بول سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے جتنے بھی مینیجنگ ڈائریکٹر بنے وہ سارے کے سارے یورپی تھے۔اس لئے یہ توقع رکھنا خود کو فریب دینے کے مترادف ہے کہ پاکستان کو قرضے کی قسط جاری کروانے میں وہ ممالک پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیں گے جو ماضی میں خود بھی ہماری دامے، درمے سخنے مدد کرتے رہے ہیں۔یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ان ممالک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اگر ان کی تکمیل نہ ہو تو وہ پاکستان کی کبھی مدد نہیں کریں گے۔ آج پوری قوم کو یہ بات اچھی طرح سمجھ آرہی ہے کہ قرضوں کی بنیاد پر ملکی معیشت کبھی بھی مستحکم نہیں ہوسکتی، اس مقصد کیلئے قوم کو بحیثیت مجموعی کفایت شعاری کی پالیسی پرکاربند ہونا پڑیگا، دیکھا جائے تو ملکی درآمدات میں بہت ساری اشیاء ایسی ہیں کہ جن کے بغیر بھی وطن عزیز میں زندگی معمول کے مطابق ہی رہے گی۔ کیونکہ یہ اشیائے گنتی کے لوگ استعمال کریں گے تاہم ان مہنگی ترین اشیاء پرقیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔