انٹرنیٹ کی سست رفتار اور اِس کی غیرہموار فراہمی کی بنیادی وجہ خاطرخواہ سرمایہ کاری کی کمی اور بوسیدہ مواصلاتی ترسیلی نظام ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب ہم ’آن لائن‘ طرز حکمرانی اور کاروباری سرگرمیوں کے فروغ و انحصار کی بات کرتے ہیں تو اِس کے لئے ’متواتر و مسلسل اور ایک ہی رفتار سے انٹرنیٹ کی فراہمی ریڑھ کی ہڈی جیسی کلیدی اہمیت رکھتی ہے ٹیکنالوجی کو پھلتے پھولتے دیکھنے کے خواہشمند فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال میں خرگوش جیسی چُستی تو چاہتے ہیں لیکن اِس کے لئے اصلاحات اور وسائل کچھوے کی چال سے مشابہ اور قابل بھروسہ نہیں ہیں۔ انٹرنیٹ کے حوالے سے دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں ’آن لائن ڈیلیوری‘ جس میں پکی پکائی اشیائے خوردونوش کی گھر گھر ترسیل بھی شامل ہے کا بنیادی انحصار ’انٹرنیٹ‘ پر ہوتا ہے اور جب کسی بھی وجہ سے انٹرنیٹ کی بندش کی جاتی ہے تو اِس سے معاشی سرگرمی کی نبض رک جاتی ہے! حالات جیسے بھی ہوں انٹرنیٹ کی بندش نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یہ سینکڑوں ہزاروں افراد کے لئے روزگار کا واحد ذریعہ ہے اور جب بعض اداروں سے منسلک سیلزمین آن لائن ملنے والے آڈرز کے مطابق کھانا پینا تقسیم نہیں کریں گے تو اُنہیں مزدوری بھی نہیں ملے گی اور اِس طرح پہلے سے ہی معاشی حالات کی وجہ سے پریشان حال طبقات مزید پریشانیوں میں مبتلا ہو جائیں گے لہٰذا انٹرنیت کی بندش جیسی ’ستم ظریفی‘ سے مکمل گریز (اجتناب) کرنا چاہئے۔پاکستان ’ڈیجیٹل انقلاب‘ کا خواب دیکھ رہا ہے لیکن اِس ’ڈیجیٹل انقلاب‘ کو عملی جامہ پہنانے میں ابھی بہت سے چیلنجز (رکاوٹیں) درپیش ہیں۔ انٹرنیٹ کے معیار سے متعلق کارکردگی کا ایک ’عالمی پیمانہ‘ موجود ہے جس کے حالیہ متعدد اشارئیوں سے معلوم ہوا ہے پاکستان میں انٹرنیٹ کی کارکردگی بنیادی حالت میں بھی معیار نہیں اور مذکورہ پیمانے پر ناپ تول کرتے ہوئے پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں کیا گیا ہے جو انٹرنیٹ رفتار (معلومات کے تبادلے کے لحاظ سے) سست ترین ملک ہے۔ موبائل فون کے ذریعے انٹرنیٹ تک رسائی رکھنے والوں 141 ممالک میں پاکستان کا شمار 118ویں ملک کے طور پر کیا گیا ہے۔ یہ اعداد و شمار ”بائٹس فار آل“ کی حالیہ رپورٹ کا حصہ ہیں جس کے تحت ”پاکستان کے انٹرنیٹ منظرنامہ (لینڈ سکیپ) 2022ء“ کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ پاکستان میں اوسط ڈاؤن لوڈ کی رفتار بشمول موبائل کی رفتار اور فکسڈ براڈ بینڈ کی رفتار دس سے پندرہ میگا بائٹس فی سکینڈ (ایم بی پی ایس) ہے جبکہ متحدہ عرب امارات میں یہ رفتار 178 سے 221 میگابائٹس فی سکینڈ سے بھی زیادہ ہے! انٹرنیٹ کی تیزترین رفتار کے لحاظ سے سنگاپور دنیا کا سرفہرست ملک ہے جو ’فکسڈ براڈ بینڈ‘ کی رفتار کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے اور سنگاپور میں انٹرنیٹ 340 ایم بی پی ایس سے زیادہ رفتار دیتا ہے۔ سنگاپور کے بعد تیزترین انٹرنیٹ متحدہ عرب امارات میں ہے جس کی رفتار 221 ایم بی پی ایس ہے۔ جب ہم انٹرنیٹ رفتار کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو اِس سے مراد انٹرنیٹ سے جڑنا (conectivity) نہیں ہوتی بلکہ یہ دیکھنا ہوتا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے تیزترین سرگرمی (activity) کس قدر وقت میں سرانجام دی جا رہی ہے۔ پاکستان میں سرمائے کی کمی نہیں۔ کئی لاکھ روپے کے موبائل فون ہر دوسرے نہیں تو تیسرے اور چوتھے شخص کے ہاتھ اور لبادے کے ”حسن“ میں اضافہ کر رہا ہوتا ہے لیکن ایک ایسے ملک میں لاکھوں روپے مالیت کے تیزترین انٹرنیٹ سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے موبائل فون کس کام کے جبکہ فراہم کی جانے والی انٹرنیٹ کی رفتار ہی سست ہو۔ کورونا وبا کے ظہور (فروری 2020ء) سے پاکستان کے معاشی حالات خراب ہیں اور اِس صورتحال میں تیزرفتار انٹرنیٹ کے ذریعے کاروبار اور درس و تدریس جیسے عوامل بخوبی سے سرانجام دیئے جا سکتے ہیں لیکن صورتحال برعکس ہے کہ معاشی خراب حالات میں موبائل فون کمپنیوں نے سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور یہی وجہ ہے پاکستان میں موبائل فونز تو ’فائیو جی‘ آ چکے ہیں لیکن ’فائیو جی‘ ٹیکنالوجی متعارف نہیں کروائی جاسکی۔انٹرنیٹ کی موجودہ حالت اور اِس سے موجودہ استفادے کی بجائے اگر مستقبل کو دیکھا جائے تو ای ہیلتھ‘ آن لائن شاپنگ‘ بینکاری‘ رقومات کی منتقلی‘ یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی وغیرہ جیسے روزمرہ کے امور کی انجام دہی میں یہی انٹرنیٹ کام آئے گا تاہم پاکستان میں اِس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے میں شاید ابھی سال ہا سال کا عرصہ لگے گا۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی ناقص کارکردگی کی ایک وجہ ’فرسودہ انفراسٹرکچر‘ اور ’فائبر نیٹ ورک‘ ہے اور جب تک اِس شعبے میں خاطرخواہ سرمایہ کاری نہیں کی جائے گی اُس وقت تک اگلی نسل (مستقبل) کے لئے انٹرنیٹ ٹیکنالوجیز متعارف کروانا ایک خواب ہی رہے گا جب پاکستان میں جدید ترین ’فائبر آپٹک انفراسٹرکچر‘ متعارف کرانے کے لئے بروقت اقدامات نہیں کئے جاتے اُس وقت تک آن لائن (ڈیجیٹل) انقلاب بھی نہیں آئے گا کیونکہ پہلے ہی سے مواصلاتی رابطوں کے پہلے ہی سے ناتواں اور کمزور نیٹ ورک کو سال دوہزاربائیس کے سیلاب نے شدید دھچکا پہنچایا ہے اور اِس سے ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا جبکہ آٹھ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تاحال انٹرنیٹ بحال نہیں ہوا ہے اور جب تک ملک گیر سطح پر ’انٹرنیٹ‘ کا نظام فعال نہیں کیا جاتا اُس وقت تک ’فائیو جی‘ لانچ کرنے کی کوششیں بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوں گی۔قومی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جا رہی جس سے موجودہ دور کے مقابلے آنے والی نسلوں کا زیادہ نقصان ہوگا اور پاکستان جو کہ سافٹ وئر انجینئرنگ اور ڈویلپمنٹ آؤٹ سورسنگ کے ذریعے زرمبادلہ کمانا چاہتا ہے وہ ایک نہایت ہی سنہری موقع سے محروم ہو رہا ہے۔ پاکستان کے مقابلے دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کی ترقی تیز رفتاری سے جاری ہے۔ انٹرنیٹ کے معیار (کنیکٹیوٹی) کے ذریعے ممالک نے خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو کو بنایا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ دنیا بھر میں ڈیجیٹل معیشت کی مالیت ساڑھے گیارہ کھرب ڈالر سے زیادہ ہے جس میں پاکستان کی فی الوقت حصہ داری چند ارب ڈالر ہے جبکہ یہ سیاحت کی طرح ’منافع بخش‘ شعبہ ہے لیکن سیاحت اور ٹیکنالوجی دونوں ہی سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ پاکستان کو اپنے ہاں ’آئی ٹی‘ کے شعبے پر توجہ مرکوز کرنے اور ڈیجیٹل ایکو سسٹم بنانے کے لئے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں پاکستان کی کارکردگی اور درجہ بندی (رینکنگ) کے بارے میں آئینے کی صورت جو حقائق دکھائے گئے ہیں اُن کا بُرا ماننے کی بجائے پاکستان کے فیصلہ سازوں کو معیاری انٹرنیٹ کی رفتار اور توسیع میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے کیونکہ مذکورہ رپورٹ میں اِس پہلو پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ اگر جدید (تیزرفتار اور معیاری) انٹرنیٹ سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں تو اِس سے ’سائبر کرائمز‘ میں اضافہ ہوگا۔ آن لائن پونزی سکیموں اور کرپٹو کرنسی (بٹ کوائنز) دھوکہ دہی (گھوٹالوں) کی وجہ سے پہلے ہی کروڑوں روپوں کا نقصان ہو چکا ہے اور کئی ایسے پاکستانی سرمایہ کاروں کی کہانیاں بھی سامنے آئی ہیں جو عمر بھر کی جمع پونجی سے محروم ہو گئے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں کہ جہاں لوگ پہلے ہی قومی بچت کی عادت نہ رکھتے ہوں اُور وہ سرمایہ کاری کرنے سے بھی محتاط ہوں وہاں اگر دھوکہ دہی کے ایسے واقعات رونما ہوں گے تو اِس سے ملک کی کاروباری اور پیداواری سرگرمیوں میں بھی سرمایہ کاری رک جائیگی‘ رپورٹ میں بچوں کی نازیبا بیس لاکھ تصاویر کی موجودگی سے خبردار کرنا اپنی جگہ لائق تشویش ہے اور اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں بچے کتنے غیر محفوظ ہیں‘ پاکستان کو ابھی ’ڈیجیٹل پاکستان‘ بننا ہے‘ جس کیلئے بڑھتے ہوئے ’سائبر کرائمز‘ کو روکنا ہوگا۔