تقریباً بارہ سال تک جاری رہنے والے تعطل کے بعد عرب لیگ نے شام کی رکنیت بحال کر دی ہے جس کی امریکہ نے مخالفت کی ہے۔ یہ نہایت ہی اہم پیشرفت ہے کہ شام دیگر عرب ممالک سے الگ رہنے کے بعد دوبارہ ایک ہی صف میں شامل ہو گیا ہے۔ دوسری اہم بات جنگ اور غیریقینی کا خاتمہ ہے جس سے شام کے عوام شدید متاثر ہیں اور اِس سے مسلمان ممالک کے وسائل ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کی صورت ضائع ہو رہے تھے۔ ذہن نشین رہے کہ دمشق کو شام میں وحشیانہ خانہ جنگی کے آغاز کے بعد بشار الاسد کی جانب سے حزب اختلاف کے خلاف کریک ڈاؤن کی سزا کے طور پر اِس ملک کی عرب لیگ رکنیت معطل کر دی گئی تھی تاہم اس کے بعد سے حالات تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں اور اب اس تنازعے میں بشار الاسد کی حکومت کو برتری حاصل ہے جس کی بڑی وجہ باغیوں کے اتحاد کی جانب سے درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے روس کی مدد نے کام کیا ہے یقینا اِس پوری صورتحال میں چند غلط فہمیوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ قطر‘ جو شامی حزب اختلاف کے بڑے حامیوں میں سے ایک ہے‘ کا کہنا ہے کہ وہ دمشق کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات بحال نہیں کرے گا جبکہ امریکی محکمہئ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ ”اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ شام عرب لیگ میں دوبارہ شمولیت کا مستحق ہے۔“ امریکہ‘ جو شام میں حکومت کی تبدیلی کے سب سے بڑے حامیوں میں سے ایک تھا‘ اس پیشرفت پر زیادہ پریشان دکھائی دے رہا ہے بالخصوص جب زیادہ تر عرب ریاستیں ’اسد حکومت‘ کے ساتھ تعلقات اور اپنے رابطے بحال کر رہی ہیں۔ شام کی خانہ جنگی‘ جو ’عرب بہار (انقلاب)‘ کی بغاوتوں کا حصہ تھی‘ بشار الاسد کی آمرانہ حکومت کے خلاف عوامی تحریک کے طور پر شروع ہوئی تاہم جلد ہی یہ تنازعہ محاذ آرائی اورخانہ جنگی کی شکل اختیار کر گیا۔ اس تنازعے کی ایک جغرافیائی سیاسی جہت بھی تھی کیونکہ جب روس اور چند دیگر ممالک بشار الاسدکے دفاع میں آئے تو امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے ہتھیاروں اور فنڈز کے ساتھ حزب اختلاف کی حمایت کی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ شام کے لئے تباہی تھی جس میں تین لاکھ سے زیادہ شہری ہلاک اور لاکھوں شامی بے گھر ہوئے‘ جن میں سے بہت سے نے خونریزی سے بچنے کے لئے ترکی اور یورپ کا خطرناک سفر کیا۔ امید کی جا رہی ہے کہ عرب لیگ میں واپسی اور عرب ممالک کی شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے بات چیت‘ جسے سعودی اور ایرانی تعلقات کی وجہ سے تقویت ملی ہے‘ خانہ جنگی کو مستقل طور پر ختم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی اور شام کے عوام اپنے ملک کی بحالی کرسکیں گے تاکہ حکومت اور حزب اختلاف جمہوری طریقے سے اقتدار میں شراکت کے معاہدے تک پہنچ سکیں۔ اب وقت ہے کہ شام میں تعمیرنو کا عمل شروع کیا جائے۔