یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں ہر معاملہ میں پیسے کاچل چلاؤ ہے سیاست بھی اب پیسے والوں کاکھیل بن چکی ہے اوریہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ الیکشن بہت مہنگا ہوچکا ہے۔ عام شہری جب یہ دیکھتا ہے کہ کسی چیز کے دام بڑھ گئے ہیں تو وہ اْس چیز پر اپنا خرچ کم کردیتا ہے۔ الیکشن کا معاملہ اْلٹا ہے۔ مہنگا ہوجانے کے باوجود اْس پر صرف کی جانے والی رقم کم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ ماضی کے کئی انتخابات کو یاد کرلیجئے یا ماضی قریب میں بلدیاتی یاضمنی الیکشن پر نظر دوڑایئے خرچ ہی خرچ پہلے بھی ہوا اور اب بھی ہوتا دکھائی دے رہا ہے انتخابی اخراجات دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو دکھائی دیتے ہیں۔ دوسرے وہ جو دکھائی نہیں دیتے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نہ دکھائی دینے والے اخراجات یقیناً دکھائی دینے والے اخراجات سے زیادہ ہوتے ہونگے۔یہ اس لئے ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اس خیال کی حامل ہیں کہ جب تک انتخابی مہم کو اخباری و برقی اشتہارات، بینر، پوسٹر، میٹنگوں، بڑے جلسوں، ریلیوں اور روڈ شو جیسے ہتھیاروں سے لیس نہیں کیا جائیگا تب تک کسی پارٹی یا اْمیدوار کے جیتنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بہت اچھا اْمیدوار جو نہ تو خود خرچ کرسکتا ہو نہ ہی اْس کی پارٹی اْسے مالی تعاون دینے کیلئے تیا رہو، اْسے اپنی جیت کی اْمید ہرگز نہیں کرنی چاہئے۔ اس کے برخلاف کوئی ایسا اْمیدوار جس کی ساکھ اچھی نہ ہو، وہ بہت زیادہ خرچ کرکے اور اس تاثر کو عام کرکے کہ وہی میدان میں ہے، کوئی دوسرا اْمیدوار نہیں ہے، رائے عامہ پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ اِس کا ایک اور مفہوم ہے جو وسیع تر ہے۔ ہمارے رائے دہندگان ابھی اتنے باشعور نہیں ہیں کہ ہر اْمیدوار کی تعلیمی لیاقت، اس کا سماجی پس منظر، اْس کے افکار و خیالات اور انتخابی حلقے کی ترقی کیلئے اْس کے منصوبوں پر اپنے ووٹ کا انحصار کرسکیں۔پاکستان میں الیکشن اخراجات کیلئے قوانین موجود ہیں، قومی اسمبلی کے امیدوار کیلئے چالیس لاکھ اور صوبائی اسمبلی کے امیدوار کیلئے بیس لاکھ کی حد مقرر ہے۔ جبکہ سینیٹر کیلئے پندرہ لاکھ روپے کی حد مقرر ہے۔ اس سے زیادہ اخراجات ثابت ہوجائیں تو عہدہ سے نااہلی بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن شاید ہزار میں سے کوئی ایک آدھ امیدوار ہوگا جو انتخاب تو جیت گیا ہو مگر اس نے اخراجات قانون کے دائرے میں رہ کر کئے ہوں، زبان زد عام ہے کہ امیدوار لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ انتخابی اخراجات کا تعلق حلقہ اور امیدوار دونوں کی خصوصی، ہئیت، نوعیت، اور اہمیت پر منحصر ہے۔ ایک مضبوط امیدوار کو چیلنج کرنے کیلئے روپے پیسے کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔الیکشن کے دنوں میں روزمرہ کے اخراجات میں معمول کا خرچہ وہ ہے جب حلقہ میں سینکڑوں، بلکہ ہزاروں لوگ امیدواروں سے ملاقات کیلئے آتے ہیں تو انکی تواضح چائے، بسکٹ اور شربت سے کی جاتی ہے۔ اکثر اوقات لنگر کا انتظام بھی ہوتا ہے تاکہ کوئی کھانا کھائے بغیر واپس نہ جائے۔ اسی طرح سیاسی و سماجی تقریبات میں شرکت، فلاحی تنظیموں کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا، رفاہ عامہ و ترقیاتی کاموں کا افتتاح، کھیل اور دیگر سماجی سرگرمیوں میں عوام کی حوصلہ افزائی سے لے کر مریضوں کی عیادت تک، کوئی معاشرتی یا سماجی ذمہ داری ایسی نہیں جو سیاستدانوں کے فرائض منصبی میں شامل نہ ہو اور ان سب ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ خاص خاص دوستوں کے گھر تحفے تحائف بھیجنا ایک اور اضافی خرچہ سمجھ لیں۔الیکشن کے نزدیک گاڑیوں کے قافلے تیار کئے جاتے ہیں، عوامی رابطہ مہم اور جلسے جلوسوں پر یوں گاڑیاں دوڑائی جاتی ہیں جیسے کوئی بڑی آفت آگئی ہو، الیکشن کے دنوں میں پیٹرول اور ڈیزل کا خرچہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ نئی نئی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں تاکہ انتخابی مہم میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ الیکشن کے دنوں میں پرنٹنگ پریس والوں کی چاندی ہوجاتی ہے، چند ماہ کی کمائی سے سالوں کے خرچے نکل آتے ہیں، اشتہارات اور دیگر چھپائی کا کام دن رات شفٹیں چلاکر پورا کیا جاتا ہے، چائنیز فلیکس ٹیکنالوجی نے کسی حد تک پینٹرز کا کام ٹھپ کردیا ہے، مگر پھر بھی کپڑے کے بینرز اور دیواروں پر لکھائی کی جاتی ہے، امیدواروں کو اور ایک دوسرے سے بڑھ کر حلقہ میں یہ تاثر عام کرنا ہوتا ہے کہ کس کی پبلسٹی زیادہ ہے۔ جتنی زیادہ پبلسٹی اتنی زیادہ نفسیاتی برتری۔ ان دنوں بعض سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے مستقل الیکشن سیل قائم کئے ہوتے ہیں، سوشل میڈیا ایکٹیووسٹ اور پیشہ ور بلاگرز دن رات سیاسی بیانیہ کی تشکیل اور تشہیر میں مشغول رہتے ہیں اور سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ کہ اکثر امیدوار پارٹی ٹکٹ بھی بھاری رقوم دیکر حاصل کرتے ہیں۔ اب تو سیاسی جماعتیں پارٹی فنڈ کے نام پر ٹکٹ کیلئے امیدواروں سے بھاری فیس وصول کرتی ہیں۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ بعض آسودہ حال، متمول سیاستدانوں کی وجہ شہرت ہی یہ بن گئی ہے کہ وہ فلاں لیڈر کی اے۔ ٹی۔ ایم۔ مشینز ہیں۔ بدقسمتی سے ایسا ہوتا بھی ہے، جب جلسوں اور الیکشن کیمپئن کے اخراجات پارٹی کے دولت مند لیڈرز اپنے ذمہ لے لیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں کیا ایک عام پاکستانی انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ سکتا ہے۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ جس دن سیاسی جماعتوں اور اْمیدواروں کو یہ احساس ہوگا کہ کتنا بھی خرچ کرلیا جائے رائے دہندگان خارجی ماحول کا اثر نہیں لیتے بلکہ اپنی مرضی سے ووٹ دیتے ہیں اْس دن بہت زیادہ خرچ کرنے کے رجحان کی خود بخودحوصلہ شکنی ہو جائیگی۔ اِس زاویئے سے عوام کی ذہن سازی میں کلیدی کردار الیکشن کمیشن ادا کرسکتا ہے مگر گزشتہ کئی برسوں کے تجربے نے عوام کو الیکشن کمیشن کی جانب سے بڑی حد تک مایوس کردیا ہے۔ اْس سے یہ اْمید فضول ہے کہ وہ رائے دہندگان کی بیداری کیلئے مہم چلا کر الیکشن کوبامعنی بنانے پر توجہ مرکوز کرے گا۔ جب الیکشن کمیشن سے اس کی توقع فضول ہے تو یہ کام سماجی تنظیموں کا ہے کیونکہ جمہوریت کو اْس معیار پر لے جانا ضروری ہے جہاں پہنچ کر اس پر فخر کیا جاسکے۔ ایسا ہوا تو ہم الیکشن پر خرچ ہونے والے کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے بچا سکتے ہیں۔
بصورت دیگر سیاست اور انتخابات دونوں ہی سرمایہ داروں کے گھروں کے طواف کرتے رہیں گے یہی وجہ ہے کہ اس وقت سیاست کو سب سے منافع بخش کاروباربھی تصور کیاجانے لگاہے کہ آپ چند کروڑ خرچ کرکے اگلے چند سال میں اربوں روپے کما سکتے ہیں سیاست اور الیکشن کوجب تک غریب کی دہلیز تک نہیں لایاجاتا جب تک اس حوالہ سے اصلاحات کاڈول نہیں ڈالا جاتا خدشہ ہے کہ سسٹم پر سے لوگوں کارہا سہا اعتماد بھی ختم ہوجائے گا جس کاخمیازہ پھر سیاستدانوں کو ہی سب سے زیادہ بھگتنا پڑسکتاہے انتخابی اخراجات کو کنٹرول کرنے کے لئے اب عملی قدم اٹھانے ہی ہوں گے۔